سینئر ترین جج26اکتوبر کو چیف جسٹس بن جائینگے:آئینی عدالت کے7یا8ججز ہوں اس میں تمام صوبوں اور اسلام آباد سے نمائندگی شامل ہو:وزیرقانون

سینئر ترین جج26اکتوبر کو چیف جسٹس بن جائینگے:آئینی عدالت کے7یا8ججز ہوں اس میں تمام صوبوں اور اسلام آباد سے نمائندگی شامل ہو:وزیرقانون

اسلام آباد(نمائندہ دنیا،نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک)وزیرقانون اعظم نذیرتارڑنے کہا چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ 25 اکتوبر تک ہیں اور 26 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج چیف جسٹس بن جائیں گے ،ہمارے ذہن میں ایک خاکہ تھا کہ آئینی عدالت کیلئے 7یا8ججز تعینات کیے جائیں۔

اس میں تمام صوبوں اور اسلام آباد سے نمائندگی شامل ہو،ان خیالات کا اظہار انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔وزیر قانون نے کہا مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان میثاق جمہوریت پردستخط ہوئے ،18ویں ترمیم کے نامکمل ایجنڈے کو آگے بڑھانے کافیصلہ ہوا ہے ، آئینی ترامیم دو تہائی سے ہونی ہے آئینی ترامیم کے حوالے سے آج بھی جو پیکیج گردش کر رہا ہے وہ عارضی ہے ، ڈرافٹ اس وقت تک فائنل نہیں ہوتا جب تک کابینہ کی منظوری نہ مل جائے ، جب تک حکومتی بل کابینہ میں پیش نہیں ہوتا، وہ بل نہیں ہوتا۔وزارت قانون کو ایک ٹاسک دیا گیا کہ ایک مسودہ تیار کیا جائے ،اسمبلی میں بل پیش ہوتا ہے تو اس پر بحث ہوتی ہے ،قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس چل رہے تھے ،ہم اتحادی حکومت میں بیٹھے ہیں،بارز،سی اوڈی کے مطالبات، اتحادی جماعتوں اور سرکاری اداروں کے مطالبات کو سامنے رکھا گیا، سویلینز کے حقوق کی شقیں بھی رکھی گئیں،فوجی عدالتوں کے قیام کی بھی بات ہوئی،خیبرپختونخوا نے بہت قربانیاں دیں، آج بھی دے رہا ہے ،عسکری قیادت نے ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران ہمیں کنفرنٹ کیا کہ آپ نظام انصاف کی کمزوری کی وجہ سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کر سکے ، ہمارے نوجوان قربانیاں دیتے ہیں، کیا جو وردی میں قربانیاں دیتے ہیں، ان کے اہل خانہ کیا پاکستانی نہیں، کیا ان کی رگوں میں خون نہیں دوڑتا، اجلاس کے دوران اس بات پر بھی بحث کی گئی کہ اس ملک کا جو سب سے بڑا مقدمہ تھا جس میں محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا، اس کیس میں بہت اچھی تفتیش ہوئی، میں اس کا حصہ تھا۔

اس میں پولیس کی ایک ٹیم کو سزا دے دی گئی۔اس کیس میں ہوا کیا، جو سہولت کار تھے ، دہشت گرد تھے ، ان کے بارے میں ڈی این اے شواہد تھے ، بالوں کے نمونے میچ ہوئے تھے ، جہاں سے یہ وہ جوتے خریدے گئے ، وہاں کی فوٹیج تھی، وہ رسیدیں ان کی جیبوں سے نکلیں، کافی چیزیں تھیں، جب فیصلہ ہوا تو یک دم خبر آئی کہ وہ جو سہولت کار ہیں دہشت گرد، انہیں بری کردیا گیا ہے اور وہ ملازمین جو وہاں ڈیوٹی پر تھے ، انہیں سزائیں دے دی گئی ہیں، بعد میں پتا چلا کہ جج صاحب کو دھمکیاں دی گئی تھیں۔ یہ بات اجلاس میں کہی گئی کہ راہ حق کے شہیدوں کے ترانے پر آنسو بہانے سے ہمارے زخموں کا خشک ہونا ممکن نہیں ہے ، عسکری قیادت نے کہا ملک کے لیے جانیں دینے والوں کے گھر بار نہیں ہوتے ؟ہمارے ورثا کو تسلی تب ہوگی جب ہمارے جوانوں کے قاتل سولی پر چڑھیں گے ، سخت گفتگو تھی لیکن اس کے باوجود سیاسی قیادت نے یہ فیصلہ کیا کہ اسے سول سائیڈ پر ڈیل کیا جائے اور اسی وجہ سے اصلی مسودے میں یہ بات شامل کی گئی کہ اگر ان کی تنصیبات اور ان کے اہلکاروں پر حملے ہوتے ہیں تو اس حد تک ان مقدمات کو فوجی عدالتیں دیکھ سکتی ہیں۔طے ہوا کہ بعد میں اس معاملے کو نکال دیا جائے گا،بلوچستان کے اتحادیوں، مولانا فضل الرحمن نے کہا ابھی اس کو نہ کریں۔ میثاق جمہوریت سے پہلے آئینی عدالت کے قیام کا تصور عاصمہ جہانگیر نے دیا تھا، آئینی عدالت کا خاکہ نو ممبران پر مشتمل تھا، ہم نے سوچا آئینی عدالت کیلئے صوبوں کی بھی نمائندگی ہو، جج کی عمر کی حد 65 یا 68 سال کرنے پر بار کونسلز چاہیں تو کمیٹی بھی بنا سکتی ہیں، ہماری شکایت یہ ہے کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو بھی اعتماد میں لیا جاتا، کیا آئینی عدالت کی گنجائش ہمارے آئینی نظام میں ہے یا نہیں،آئینی عدالت کے قیام سے متعلق بارکونسل مشترکہ کمیٹی بنائیں، ہماری رہنمائی کریں،بتائیں عدلیہ کے معاملات سے متعلق کس طرح کا ماڈل رکھا جائے ؟فاروق ایچ نائیک نے کہا آئین ایک زندہ دستاویز ہے نہ کہ مردہ، زندہ دستاویز کا مطلب یہ کہ اس میں تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں، قرارداد مقاصد میں عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کا کہا گیا ہے ۔

دیگر ممالک میں بھی آئینی عدالتیں موجود ہیں، آئینی عدالت کا قیام وقت کی ضرورت ہے ، سپریم کورٹ میں ضابطہ فوجداری و دیوانی مقدمات زیر التوا ہیں، ہم نے دیکھنا ہے کہ آئینی عدالت عدلیہ کی آزادی کیخلاف ہے یا نہیں۔اگر عدلیہ کی آزادی کے برخلاف نہیں تو آئینی عدالت کا ضرور قیام ہونا چاہیے ، وزیر قانون سے درخواست ہے مسودے کو حتمی شکل دیں اور پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار سے شیئر کریں، ہم چاہتے ہیں کہ ایک اچھی سوچ ضائع نہ ہو جائے ، مجھے سمجھ نہیں آتی آئینی عدالت کا قیام اٹھارہویں ترمیم کا حصہ کیوں نہ بنی، چاہوں گا کہ ہم ایک کمیٹی بنائیں اور حکومت ہم سے ڈرافٹ شیئر کرے ۔صدر سپریم کورٹ بارشہزاد شوکت نے اپنے خطاب میں کہا آج جو رائے مانگ رہے ہیں وہ پہلے مانگ لیتے ، آئینی عدالت کے قیام پر سب کے ساتھ اتفاق کیا ہے لیکن ہمیں آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر تحفظات ہیں،ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر گفت و شنید کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے ۔ہمارا سپریم کورٹ سے مطالبہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کے خلاف ہماری درخواست پر سماعت کی جائے ۔سینئر سپریم کورٹ وکیل و سابق صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے کہا کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہ ہو یہ بھی یقینی بنائیں، آئینی عدالت کا سربراہ وزیر اعظم نہ لگائے ، آئینی عدالت کا چیف جسٹس چیف الیکشن کمشنر کی طرح لگایا جائے ، آئینی ترامیم رات کے اندھیرے میں چھپ چھپا کر نہیں ہوتیں، ہم گھر والے تھے ہمیں ہی اعتماد میں لے لیتے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں