ایک دوسرے کو جھکانے کا سلسلہ ،سسٹم کیلئے خطرناک

ایک دوسرے کو جھکانے کا سلسلہ ،سسٹم کیلئے خطرناک

(تجزیہ: سلمان غنی) بانی پی ٹی آئی اپنی رہائی اور سیاسی مفادات کیلئے احتجاجی سیاست پر مضر ہے اور اس مقصد کیلئے وہ کسی قسم کے قوانین اور ضابطوں کو بروئے کار لانے کو تیار نہیں اور تاثر یہ ہے کہ وہ اپنے اس طرزعمل سے ملک میں ہنگامی اور غیر معمولی حالات برپا کرنے پر مضر ہے ۔

اب ان کے پختونخواکے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اب انقلاب آئے گا اور جو ہمیں مارنے آئے گا اسے ماریں گے ۔دوسری جانب حکومت سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی کا مقصد صرف احتجاج نہیں بلکہ وہ ملک میں ایسے حالات پیدا کرنے پر مضر ہے کہ جس کے نتیجہ میں ریاست چلتی نظر آئے اور اس کے مذموم مقاصد پورے ہوں۔ پاکستان میں مایوسی بے چینی اور بے یقینی کے بادل چھائے نظر آئیں لہٰذا اس صورتحال پر ملک بھر میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے اور اس عمل کا حکومت یا سیاسی جماعتوں کو تو ہو سکتا ہے کہ بڑا نقصان نہ ہو لیکن اس کے براہ راست اثرات ملکی معیشت پر رونما نظر آ رہے ہیں ۔ ملک آگے بڑھتا نظر نہیں آ رہا اور باوجود اس کے ملک میں جمہوری حکومتوں کے استحکام ناپید نظر آ رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں خصوصاً مقننہ عدلیہ اور انتظامیہ میں نفسیاتی کیفیت کی فضا بھی کچھ اچھے نتائج پیدا نہیں کررہی لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا احتجاجی عمل اور پرتشدد سیاست کا ملک متحمل ہو سکتا ہے ۔

منتخب حکومتوں کے قیام سے اب تک کوئی دن ایسا نہیں جا رہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے یہاں احتجاجی کیفیت طاری کرنے کی کوشش نہ کی جاتی ہو ۔پی ٹی آئی کے بانی اپنے طرزعمل اور طریقہ کار سے یہ ظاہر کرتے نظر آتے ہیں کہ ملک میں وہی ہوگا جو وہ چاہتے ہیں اور اس حوالہ سے وہ کسی کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ایک طرف ان کا سیاسی قوتوں کے ساتھ ڈیڈ لاک ہے تو اب وہ کھلے طور پر پاکستان کی مقتدرہ سے بھی مذاکرات کے دروازے بند کر چکے ہیں اور اب وہ مسلسل اپنی جماعت ، اس کے ذمہ داران کو ملک میں ہنگامی صورتحال طاری کرنے کیلئے ہدایات دے رہے ہیں ۔حکومت سے زیادہ ریاست اور ریاستی اداروں کو دباؤ میں لانے کے ایجنڈا پر کار بند ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہیں اور راستے کھلنے کے بجائے بند ہوتے جا رہے ہیں ، کسی بھی سیاسی جماعت اور لیڈر کیلئے ایسا نہیں ہوتا لہٰذا ایک طرف جہاں پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاجی عمل کو قانون کے دائرے میں لانے کی ضرورت ہے تو وہاں خود حکومت کو بھی اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی چاہئے یہ شہروں کی بندش کا عمل اس کی مقبولیت پر اثر انداز ہو رہا ہے اس سے عوام کی مشکلات بڑھتی ہیں آج کے حالات میں تو اصل ضرورت راستے کھولنے کی ہے بند کرنے کی نہیں اور سیاسی قوتوں اور قیادتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ سوچیں اور جانیں کہ یہ بے چینی اور بے یقینی کیوں ہے آپس کے تناؤ ٹکراؤ کا انجام کیا ہوگا ۔اگر ایک دوسرے کو جھکانے گرانے اور دیوار سے لگانے کا سلسلہ جاری رہے گا تو سسٹم کیلئے ہی خطرات پیدا ہوں گے لہٰذا وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے اپنے طرز عمل پر نظرثانی کریں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں