مریم نواز کاخط پاک بھارت ڈائیلاگ کی شروعات بن سکتا
(تجزیہ:سلمان غنی) وزیر اعلیٰ مریم نواز کی جانب سے سموگ کے خطرناک رجحان اور اسکے انسانی زندگیوں پر مضر اثرات پر مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو مکتوب بھجوانے کا عندیہ ایک طرف تو مسئلہ کی سنگینی ظاہر کررہا ہے تو دوسری طرف اس جان لیوا رجحان کے سدباب کیلئے تا ہم ملکر مقابلہ کا عزم انسانی جذبہ کا عکاسی ہے ۔
بلا شبہ سموگ اب باقاعدہ روگ کا روپ اختیار کرتے انسانی زندگیوں سے کھیلتی نظر آرہی ہے اور اس مسئلہ کا مقابلہ جذبہ سے ہی کیا جاسکتا ہے ۔مشرقی بارڈر کے دونوں طرف سموگ کا عمل انسانی زندگیوں سے کھیلتا نظر آتا ہے اور اگر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اس دوطرفہ عمل کے سد باب کیلئے دوطرفہ اقدامات پر زور دیتی نظر آرہی ہیں تو اسکی بنیاد سیاسی نہیں انسانی ہے اور انسانی جذبہ کو بروئے کار لاکر مربوط حکمت عملی کے تحت اس پر قابو پایا جاسکتا ہے لہٰذا ایسا کوئی امر مائع نظر نہیں آتا کہ وزیر اعلیٰ کو مکتوب بھجوانے میں کوئی مشکل ہو اور نہ ہی مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بارے کہا جاسکتا ہے کہ وہ انسانی بنیادوں پر اس مسئلہ کے حل کیلئے تعاون اقدامات میں رکاوٹ بنیں۔ اگر علاقائی صورتحال پر نظر دوڑائی جائے تو بہت سے مسائل کا حل مشترکہ حکمت عملی کے تحت ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔ آج اگر وزیر اعلیٰ مریم نوازسموگ جیسے خطرناک رجحان پر مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے مدد طلب کرتی ہیں اور ملکر اس جان لیوا رجحان بڑنے کی بات کررہی ہیں تو اس پر شروعات ہوسکتی ہیں مذاکرات اور ڈائیلاک کے عمل میں ہی دونوں کا مفاد ہے ۔ انسانی بنیادوں پر بھی آگے بڑھا جاسکتا ہے اور علاقائی مسائل حل کیلئے بھی دوطرفہ تعاون ممکن بن سکتا ہے مگر اس کیلئے ان تنازعات کا حل یقینی بناناہوگا جو دور یوں کا باعث بنے جہاں تک سموگ اور اسکے خطرات کا سوال ہے تو یہ پیدا تو دھند اور دھوئیں کے ملاپ سے ہوتی ہے اور آلودگی کی بڑی وجہ فصلیں جلانے اور انڈسٹریز کادھواں ہے ۔سرحد کے دونوں طرف مشترکہ حکمت عملی پر انسانی بنیادوں پر پلان پر عملدرآمد ہوجائے تو اس لعنت سے چھٹکارا مل سکتا ہے ۔ فضائی آلودگی کی بجائے آلودگی کا عمل ماحولیات کو صفر بناناصحت افزا بنا سکتا ہے لیکن یہ عمل سیاسی بنیادوں پر ملانے کی بجائے انسانی بنیادوں پر ہوناچاہیے اس کیلئے نیتیں صاف دل بڑا اور مقاصد نیک رکھنا ہوں گے ۔