بھارت سے بہتر تعلقات میں مشکل نہیں مگر پیشرفت کیسے ہوگی
(تجزیہ:سلمان غنی) مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف ملک کے اندر ہوں یا باہر وہ بھارت کے حوالہ سے اپنی گفتگو اور سوالات و جوابات کے عمل میں ہمیشہ سافٹ نظر آتے ہیں اور شروع سے ان کا یہی موقف رہا ہے کہ ہم بھارت سے تعلقات اور ڈائیلاگ کے خواہاں ہیں اور وہ سمجھتے ہیں خطے میں استحکام باہم گفت و شنید کے عمل سے ہی ممکن بن سکتا ہے ۔
انہوں نے دورہ جنیوا کے بعد لندن پہنچنے پر پھر یہی کہا کہ بھارت سے خراب تعلقات سنور سکتے ہیں مجھے تعلقات ٹھیک ہونے میں کوئی مشکل نظر نہیں آتی ،ہمیں بھارت سے تعلقات سنوار نے کی ضرورت ہے ۔ عالمی دباؤ کے باوجود پاکستان اور بھارت میں کشمیر جیسے سلگتے ایشوز کے علاوہ دیگر ایشوز پر مذاکرات پر کیونکر پیش رفت نہیں ہوپاتی۔ بلاشبہ پاکستان ہمیشہ سے ہی بھارت سے اچھے تعلقات کا خواہاں رہا اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سمیت تمام ایشوز کے پرامن حل کی بات کرتا رہا ہے ۔2014کے بعد نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعدسے اب تک پاک بھارت تعلقات خصوصاً مذاکرات میں ڈیڈ لاک کی بڑی وجہ خود ان کی سوچ رہی اور وہ نہ صرف کشمیر پر بات چیت سے انکاری رہے بلکہ وہ بے دھڑک انداز میں کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ اور کشمیر ہمارا اور سارے کا سارا نعرہ لگاتے نظر آئے ۔
حال ہی میں شنگھائی کانفرنس میں بھارتی وزیرخارجہ شریک تو ہوئے البتہ انہوں نے اسلام آباد کے موسم کی تعریف کرتے ہوئے آپس میں مذاکرات کے امکان کو مسترد کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت مذاکرات اور ڈائیلاگ سے گریزاں ہے ۔مذاکراتی عمل تب ہی ممکن ہوتا ہے جب یہ تحریک دوطرفہ ہو تبھی مذاکرات کی میز سجتی ہے اور بات چیت بھی ہوتی ہے اب جبکہ بھارتی قیادت پاکستان کے حوالہ سے لچک پر تیار نہیں تو بار بار مذاکرات کی تکرار اور اصرار پاکستان کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے ۔نواز شریف کو بھارت سے تعلقات بہتر ہونے میں دقت نظر نہیں آتی تو پھر اس حوالہ سے پیش رفت کرتے ہوئے پہلے بھارتی کرکٹ ٹیم کی پاکستان آمد کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا چاہیے تاکہ برف تو پگھلے ۔ڈائیلاگ تب ممکن ہوگا جب بھارتی لیڈر شپ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرے گی جس کے امکانات نظر نہیں آ رہے ۔