پی ٹی آئی کا اقوام متحدہ میں مقدمہ لے جانا نتیجہ خیز ہوگا؟
(تجزیہ:سلمان غنی) پی ٹی آئی کی سیاست اور بانی کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو ان کا جارحانہ طرز عمل اور احتجاجی سیاست جو انکی سیاسی اٹھان کا باعث بنی ہے آج اس نہج پر لے آئی ہے کہ عملاً پی ٹی آئی دفاعی محاذ پر کھڑی ہے۔
پارٹی میں بھی بحرانی کیفیت ہے سب ایک دوسرے کو24نومبر کے احتجاجی مارچ کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دیتے نظر آرہے ہیں اور لیڈر شپ اور انکے طرز عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقتی طور پر احتجاج کا بخار اتر چکا ہے ۔اب ایک طرف 26نومبر کے واقعات اور اموات کے پیش نظر وہ عدالت عظمیٰ سے جوڈیشل کمیشن بنانے کے مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں تو دوسری طرف احتجاج میں جان سے جانے والوں کا مقدمہ اقوام متحدہ لے جانے کا اعلان کیا ہے ۔انہوں نے احتجاج کو عوام کا بنیادی آئینی وجمہوری حق قرار دیتے کہا ہے کہ یہ کسی بھی وقت کہیں بھی کیا جاسکتا ہے اور حقیقی آزادی کی تحریک رکنے والی نہیں ۔بلا شبہ احتجاج آئین اور قانون کے تحت ہر پاکستانی کا حق ہے اور ملکی سیاسی تاریخ احتجاج اور احتجاجی سیاست کی گواہ ہے مگر کیا وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی جب بھی احتجاج کی کال آتی ہے مرنے مارنے اور کفن باندھ کر میدان میں اترنے کا عزم ظاہر کیا جاتا ہے ، لامحالہ اداروں کو الرٹ ہونا پڑتا ہے ۔جب تک بانی پی ٹی آئی حقائق کا ادراک نہیں کر پائیں گے ان کیلئے سیاسی جدوجہد میں مشکلات ہوں گی اور وہ اس حوالے سے خود اپنی جماعت کے ذمہ داران سے آگاہی حاصل کریں اور تحقیقات کی ذمہ داری اداروں پر چھوڑنے کی بجائے اپنی جماعت پر ہی اکتفا کریں جہاں تک انکی جانب سے اقوام متحدہ سے رجوع کا سوال ہے تو دراصل بانی ایسی باتیں کر کے خود ریاستی اداروں کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت جمہوری آزادیوں اور احتجاج کے عمل کو آئین قانون کے تابع بنا کر ہی یقینی بنایا جاسکتا ہے اور یہاں کسی شخص ادارے یا ممالک کو ریاست سے بالاتر ہونے کا حق حاصل نہیں۔