فوجی عدالتوں کو فیصلہ سنانے دیا جائے، حکومتی استدعا سپریم کورٹ میں مسترد
اسلام آباد(کورٹ رپورٹر، دنیا نیوز، اے پی پی)سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو سویلینز کے ٹرائل کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مسترد کر دی جبکہ 26ویں آئینی ترمیم پر فیصلے تک سماعت معطلی کی درخواست خارج کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس کو 20ہزار جرمانہ کردیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلوں پر سماعت کی، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہماری وکلا سے درخواست ہے اس کیس کو مکمل کرنے میں مدد کریں،وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا یہ کہنا ہی غلط ہے کہ سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، آرمی ایکٹ مسلح افواج کے ساتھ کام کرنے والی پرائیویٹ کمپنیز کے ملازمین پر بھی لاگو ہے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا وہ تو سویلین کی الگ قسم ہوتی ہے جو آرڈیننس فیکٹری وغیرہ میں کام کرتے ہیں، خواجہ حارث نے کہا جی بالکل آرمی ایکٹ سویلین کی کیٹیگری کی بات ہی کرتا ہے ، جسٹس علی مظہر نے کہا کہ آپ کا کیس مگر آرمی ایکٹ کی اس شق میں نہیں آتا۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کور کمانڈرز جب گھر کو بطور دفتر استعمال کریں تو کیا اسے دفتر ڈکلیئر کرتے ہیں؟ یہ بات کتنی درست ہے کہ یہ آئیڈیا بعد میں آیا کور کمانڈر کا گھر بھی دفتر تھا، وکیل خواجہ حارث نے کہا میں ایسے کسی نوٹیفکیشن کی طرف نہیں جا رہا،جسٹس نعیم افغان نے سوال کیا کہ یہ بتائیں انسداد دہشتگردی عدالتوں نے ملزموں کی ملٹری کو حوالگی کیسے دی؟ کیا اے ٹی سی کورٹس کا وجوہات پر مبنی کوئی آرڈر موجود ہے ؟ آپ یہ سوال نوٹ کر لیں بے شک آخر میں جواب دیں۔وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا جسٹس منیب اختر کے تحریر کردہ فیصلے کے کچھ حصوں پر اعتراض ہے ، اس پر دلائل دوں گا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ اے پی ایس پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کیسے چلا تھا؟ وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا اکیسویں ترمیم ہوئی تھی جسکے بعد ٹرائل ہوا ، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا اس وقت تو سویلین کیخلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیلئے آئین میں ترمیم کی گئی تھی۔جسٹس مسرت ہلالی نے حفیظ اللہ نیازی سے مکالمہ کرتے کہا کہ کیا آپکی ملاقات کرائی جا رہی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ جی ہو رہی ہے ، سپریم کورٹ کے فیصلے پریرغمالی صورتحال سے دو چار ہیں۔جسٹس امین الدین خان نے کہا آپ یہاں تقریر نہ کریں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا فوجی عدالتوں میں ٹرائل مکمل ہو چکے ہیں لہذا فوجی عدالتوں کو ٹرائل کے فیصلے سنانے کی اجازت دی جائے ۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ایسا نہیں کر سکتے ، فوجی عدالتوں کو کیسز کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کا مطلب انکا اختیار تسلیم کرنا ہو گا۔بعدازاں آئینی بینچ نے حکومت کی فوجی عدالتوں کو کیسز کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی درخواست مسترد کر دی اور اپیلوں پر سماعت آج تک ملتوی کر دی ۔
آئینی بینچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی جانب سے فوجی ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ چلانے بارے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فیصلے تک معطل کرنے کی درخواست پرسماعت کی، عدالت نے فوجی عدالت میں سویلین کے مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کو کارروائی میں تاخیر کی کوشش قرار دیتے ہوئے درخواست گزار پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا،جسٹس علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ عدالت 26ویں ترمیم کو کالعدم بھی کر دے ، آئینی بنچ کے فیصلے محفوظ رہیں گے ،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آئینی بینچ 26ویں ترمیم کے تحت کام کر رہا ہے اور مذکورہ ترمیم کیخلاف درخواست کی سماعت وہی بینچ کرے گا۔آئینی بینچ نے سینئر صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف قتل کیس کی بھی سماعت کی ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ پاکستان اور کینیا کی حکومت کے مابین قانونی معاونت (میوچل لیگل اسسٹنس ،ایم ایل اے )کا معاہدہ تیار کر لیا گیا ہے ، منگل کو دستخط ہو جائینگے ،رپورٹ داخل نہیں کر سکا جس پر عدالت نے رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے کر سماعت ملتوی کردی۔