دہشتگردی کا توڑ نفسیاتی جنگ مشترکہ ڈیجیٹل مہم چاہیے
(تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم شہباز شریف کی فوجی قیادت کے ہمراہ چاروں صوبائی وزرا سے سکیورٹی معاملات پر ہونے والی نشست میں جہاں دہشت گردی کے خلاف ممکنہ اقدامات اور۔۔۔
اس کی نتیجہ خیزی پر بات چیت ہوئی وہاں اجلاس میں دہشت گردی کے رجحانات سے نمٹنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت قومی بیانیہ مضبوط بنانے اور خصوصاً سوشل میڈیا پر ملک دشمن مہم بنانے اور چلانے والوں کا منہ توڑ جواب دینے کا عندیہ دیا گیا اور طے پایا کہ ملکی سلامتی کے خلاف ہر طرح کے مواد کا سدباب ہوگا اور اس کے ذمہ داران کے گرد قانون کا شکنجہ کسا جائے گا لہٰذا اس امر کا جائزہ ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ کیا ہونا چاہئے اور یہ کہ ڈیجیٹل دہشت گردی کے مرتکب کون ہیں اور ان کی سرگرمیوں کا سدباب کیسے ممکن بن پائے گا اور سوشل میڈیا کے محاذ پر ریاست مخالف بیانیہ بنانے اور چلانے والوں کے حقیقی مقاصد کیا ہیں جہاں تک قومی بیانیہ کا سوال ہے کہ کسی بھی ایشو پر قوم کے اندر پائی جانے والی یکسوئی اور سنجیدگی کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کے حل کیلئے مشترکہ کوششوں اور کاوشوں کے عمل کو قومی بیانیہ کہا جاتا ہے کیا آج کی کیفیت میں ہمارے پاس قومی بیانیہ ہے جس پر ہم مشترکہ لائحہ عمل اختیار کر سکیں ؟آج جہاں پاکستان بڑے چیلنجز سے دوچار ہے وہاں سوشل میڈیا کا مضر استعمال پاکستان کے لئے بڑا ایشو بن گیا ہے اور ریاستی اور حکومتی سطح پر اس کے کردار اور اس کے غلط استعمال پر اس کی بیخ کنی پر سنجیدگی سے بات ہو رہی ہے اس لئے کہ ایک عرصہ سے سوشل میڈیا کا استعمال پاکستانی ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف اور اس سے اپنی فوج اور قوم کے درمیان خلا پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے بلاشبہ یہ ایجنڈا دشمن کا ہے اور اس کا مضر استعمال باہر سے ہو رہا ہے لیکن باہر سے ہونے والے اس زہریلے پراپیگنڈا کے اثرات ہو رہے ہیں اور پاکستان جیسا ملک جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جنگ لڑ رہا ہے۔
اس میں بنیادی نقطہ ڈیجیٹل دہشت گردی ہے اور دہشت گردی کا یہ عمل عملی طور پر دہشت گردوں کے لئے سہولت کاری یا ریاست مخالف بیانیہ بنانے میں مدد کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا ایک بڑا بحران اور طوفان کھڑا کر رہا ہے حکومت کی جانب سے مذکورہ خطرناک بحران سے نمٹنے کے لئے متعدد بار قانون سازی کا سہارا لیا گیا لیکن اس پر قابو نہیں پایا جا سکا اور اب پھر سے جہاں حکومت اور فوج مل کر دہشت گردی کی جڑ کاٹنے کے لئے سرگرم ہیں وہاں وہ اس مذموم عمل میں سوشل میڈیا کو ایک بڑے فیکٹر کے طور پر لے رہے ہیں اور ان کے نزدیک دہشت گردی اور ڈیجیٹل دہشت گرد ایک ہیں اور ان کے مفادات باہم مشترک ہیں ۔آج کی ضرورت یہ ہے کہ ہم قومی سطح پر ایک بڑی ڈیجیٹل مہم چلائیں جس میں پڑھے لکھے افراد اساتذہ دیگر کو شامل کریں اور پاکستان میں چلنے والی مخالفانہ مہمات کا توڑ پیش کریں اور اس کی روشنی میں حکومتی پالیسیاں اور قانون سازی کی جائے تو اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور سب سے اہم بات یہ کہ دہشت گردی کا توڑ محض طاقت سے نہیں بلکہ اس کے خلاف ایسی نفسیاتی جنگ کرنا ہوگی جس کے ذریعہ اس کے توڑ میں سب اپنا اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوں ۔اس سارے عمل میں بڑی ضرورت خود سیاسی قوتوں کا ایک پیج پر ہونا اور سیاسی قیادت کے درمیان یکسوئی اور سنجیدگی ضروری ہے کیا اس محاذ پر بھی حکومت پیش رفت کرے گی اور اپوزیشن کو ساتھ ملایا جائے گا۔