اسرائیل کیخلاف تیل کا ہتھیار موثر ،سفارتکار واپس بلا سکتے

اسرائیل کیخلاف تیل کا ہتھیار موثر ،سفارتکار واپس بلا سکتے

(تجزیہ:سلمان غنی) فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ظلم و جبر اور بربریت رکنے کا نام نہیں لے رہی اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے طے شدہ ایجنڈا پر عمل درآمد جاری ہے کوئی دن ایسا نہیں جا رہا کہ معصوم فلسطینیوں، خواتین اور بچوں کے خون سے ہولی نہ کھیلی جاتی ہو اور افسوس اس امر کا کہ نہ تو عالمی ضمیر حرکت میں آ رہا ہے اور عالم اسلام کو بھی سانپ سونگھا محسوس ہو رہا ہے۔

اسی سے اسرائیل کو شہ مل رہی ہے ،اس صورتحال میں اسلام آباد میں منعقدہ قومی فلسطین کانفرنس کو عوام کے اندر پیدا ردعمل کے حوالہ سے اہم قرار دیا جا سکتا ہے جس میں مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی نے جہاں اسرائیل اور اس کے حمایتیوں کے مکمل  بائیکاٹ کا اعلان کیا وہاں مسلم ممالک پر جہاد فرض قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلم ممالک کی فوجیں معصوم مظلوم اور محکوم فلسطینیوں کی بقا کے لئے آگے آئیں اور ان کی جان بچائیں ۔مذکورہ کانفرنس سے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سمیت مختلف مکاتب فکر کے رہنماؤں نے خطاب کیا جن کا کہنا تھا کہ فلسطینی اسرائیل کے رحم و کرم پر ہیں ان کا قتل عام جاری ہے اور افسوس ہم مجرمانہ خاموشی طاری کئے ہوئے ہیں اور ہمیں اپنے اس طرز عمل پر جوابدہی کے لئے تیار رہنا چاہئے ۔مگر عالم اسلام اس حوالہ سے کوئی پیش رفت نہیں کر پا رہا اور اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ براہ راست اسرائیل کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اسرائیل اپنے کھلے ایجنڈا پر گامزن ہے اور اس سے کسی بھی مسلم ملک کیلئے خیر نہیں، اسرائیل کی جنگی حکمت عملی سے ایک بات واضح ہو گئی کہ وہ خواتین اور خصوصاً معصوم بچوں کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کر رہا ہے خصوصاً حاملہ خواتین کا قتل اس لئے کیا جاتا ہے کہ ایک نہیں دو جانیں لینا ہے اور معصوم بچے اس کا اس لئے ہدف ہیں کہ یہ بچے بڑے ہو کر پھر سے اسرائیل کو چیلنج کریں گے اور فلسطینی شیر خوار بچوں کو دودھ فراہم کرنے والی این جی اوز پر قدغن سے بڑھ کر انسانی دشمنی اور کوئی نہیں ہو سکتی ،ایک رپورٹ کے مطابق اگر مسلم ممالک صرف اسرائیل سے اپنے سفارتکار ہی واپس بلا لیتے تو اسرائیل کو اس بربریت سے روکا جا سکتا تھا اسرائیل کے لئے تیل کا ہتھیار استعمال کر کے اسے مغلوب بنایا جا سکتا تھا اسے آنکھیں دکھا کر ظلم و جبر سے باز رکھا جا سکتا تھا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ مسلم ممالک کے احتجاج میں بھی صرف بیانات کا سہارا لیا اور قراردادوں پر اکتفا کیا گیااور اسرائیل نے سمجھ لیا کہ یہ محض اپنی بقا کا طرزعمل ہے جس سے اسے کوئی خطرہ نہیں البتہ پاکستان کے کردار کو دیکھا جائے تو پاکستان نے اسرائیلی ظلم و جبر کو روکنے کے لئے اور فلسطینیوں سے یکجہتی کے اظہار کے طور پر تو آواز اٹھائی مگر اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے اور بازو مروڑنے کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا ،اسی طرح ترکی کے اپنے مسائل ہیں، ملائیشیا سے اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں ،عالم عرب کے حکمران تو عملی اقدام کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو اپنے لئے میدان صاف نظر آتا ہے البتہ آج بھی وقت ہے کہ اگر حکمران مصلحت پسند ہیں تو عوام کے اندر ردعمل اور تحریک پیدا کرنا ضروری ہے اور عوامی طاقت کو بروئے کار لا کر اسرائیل پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے ، امت میں ایک تشویش اور غصہ موجود ہے ،لہٰذا اس کا اظہار احتجاج کے آپشن سے ہی مشروط ہے جسے دنیا نظر انداز نہیں کر سکتی لہٰذا آج جمعہ کو یوم مظلوم و محصورین فلسطین منانے کا اعلان کس حد تک کارگر ہو سکے گا یہ دیکھنا پڑے گا البتہ اسرائیلی اشیا ء کا بائیکاٹ ایسا آپشن ہے جس سے اس پر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے اس کیلئے تحریک چلانا لازم ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں