بڑی فصلوں کی پیداوار میں کمی، مہنگائی پر قابو : مجموعی پیداوار میں اضافہ، قرضوں کی ادائیگی میں 800ارب بچائے، 43 وزارتوں اور 400 اداروں کی رائٹ سائزنگ کرینگے : وزیرخزانہ، اقتصادی سروے پیش

اسلام آباد(خصوصی نیوز رپورٹر، سٹاف رپورٹر، دنیا نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک)وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے رواں مالی سال بڑی فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فیصد کی کمی ہوئی، مہنگائی پر کامیابی سے قابو پایا ہے، ملکی مجموعی پیداوار میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا، قرضوں کی ادائیگی میں 800 ارب بچائے، 43 وزارتوں اور 400 ملحقہ اداروں کی رائٹ سائزنگ کریں گے۔
اسلام آباد میں قومی اقتصادی سروے 25-2024 پیش کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ عالمی مجموعی پیداوار کی شرح میں کمی آئی ہے اور گلوبل جی ڈی پی نمو 2.8 فیصد ہے، تاہم ملکی مجموعی پیداوار میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جی ڈی پی میں اضافہ معاشی ترقی کی علامت ہے۔ملکی معاشی ریکوری کو عالمی منظرنامے میں دیکھا جائے گا، 2023 میں ہماری جی ڈی پی گروتھ منفی، 2024 میں 2.5 فیصد، 2025 میں 2.7 فیصد تھی اور مہنگائی کی شرح 29 فیصد سے زائد ہوچکی تھی، 2023 میں دو ہفتے کے ذخائر موجود تھے ، اس کے بعد معیشت میں بتدریج بہتری آرہی ہے اور افراط زر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی، عالمی مہنگائی دو سال پہلے 6.8 تھی جو اب 0.3 فیصد ہے ، پاکستان میں اس وقت مہنگائی بڑھنے کی شرح 4.6 فیصد پر آگئی ہے ، مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت نے مفصل حکمت عملی اپنائی، پالیسی ریٹ میں بتدریج کمی گئی اور پالیسی ریٹ ایک سال میں 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پر آگیا ہے ۔ معاشی سکیورٹی قومی سلامتی کا بہت اہم جزو ہے ، ہم درست سمت میں اور استحکام کی طرف گامزن ہیں، موڈیز اور فچ نے پاکستان سے متعلق اقتصادی آؤٹ لک میں بہتری کی، پائیدار ترقی کے لیے حکومت نے پالیسی اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا آغاز کیا، ہم نے معیشت کے ڈی این اے کو بدلنا ہے جس کے لیے سٹرکچرل ریفارمز ضروری ہیں، رواں مالی سال زرمبادلہ کے ذخائر میں شاندار اضافہ ہوا، دوست ممالک کے اعتماد میں مضبوطی سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں مدد ملی، جون 2024 تک زرمبادلہ کے ذخائر میں 5 ارب ڈالر تک اضافہ ہوا، بیرونی شعبے میں استحکام سے زرمبادلہ کے ذخائر کو 16 ارب ڈالر تک لے جانے میں مدد ملی، جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح 68 سے 65 فیصد پر آگئی۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کا مقصد پائیدار معاشی استحکام کا حصول ہے ، آئی ایم ایف پروگرام سے ہمیں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے لیے وسائل دستیاب ہوئے ، ٹیکس ٹو جی ڈی پی 5 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوا، شعبہ توانائی میں شاندار اصلاحات ہوئیں اور ایک سال میں تاریخی ریکوری ہوئی ہے ، ڈسکوز میں پیشہ ور بورڈز لگائے جس سے ڈسٹری بیوشن لاسز میں کمی آئے گی۔قرضوں کی ادائیگی میں 800 ارب بچائے ، پنشن اصلاحات میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی، آنے والے وقت میں 43 وزارتوں اور 400 ملحقہ اداروں کی رائٹ سائزنگ کریں گے ، بجٹ میں بتاؤں گا کہ اسے آگے کیسے لے کر جائیں گے ، اسے مرحلہ وار آگے لے کر جارہے ہیں، ہم وزارتوں اور محکموں کو ضم کر رہے ہیں۔ مشینری اور ٹرانسپورٹ کی نمو بڑھی ہے ، بیرونی شعبے میں دہرے بحرانوں کا المیہ رہا، بھارت نے آئی ایم ایف پروگرام رکوانے کے لیے پورا زور لگایا تھا، بھارتی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کوشش کی آئی ایم ایف کی دوسری قسط نہ ملے ، ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے ، رواں سال ترسیلات زر 37 سے 38 ارب ڈالر رہنے کا امکان ہے ، ترسیلات زر میں اضافے میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس نے کلیدی کردار ادا کیا اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ملکی معیشت پر اعتماد مضبوط ہوا۔جولائی سے مئی کے دوران ٹیکس وصولی میں 26 فیصد اضافہ ہوا ہے ، انکم ٹیکس فائلرز کی تعداد دگنی ہو کر 37 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے ، ہائی ویلیو فائلرز میں 178 فیصد اضافہ ہوا، 74 فیصد ریٹیلرز رجسٹریشن مزید ہوئی ہے ، ہم اب قرضے مزید نہیں لینا چاہتے ، اگر لیں گے تو اپنی شرائط پر لیں گے ۔
ہمیں قرضوں کی ادائیگیوں میں جتنا بھی بچے گا اس کو دیگر شعبوں میں لے جائیں گے ، صنعتوں کی نمو میں 6 فیصد تک اضافہ ہوا ہے ، خدمات کے شعبے میں 2 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا، رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں 3 فیصد تک اضافہ ہوا ہے ، زرعی شعبہ محض 0.6 فیصد تک بڑھا ہے ۔ جاری کھاتوں کا خسارہ اب سرپلس میں ہے ، اکاؤنٹس 10 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں، گزشتہ 20 سال میں پہلی بار پرائمری بیلنس سرپلس ہوا۔سکل ڈویلپمنٹ پروگرام میں 16 ہزار افراد کو آئی ٹی تربیت دی جاری ہے ، معیشت کا حجم 372 ارب ڈالر کے مقابلے میں 411 ارب ڈالر ہوگیا، فی کس آمدنی 162 ڈالر کے اضافے سے 1824 ڈالر تک پہنچ گئی۔مقامی وسائل کا فروغ ترجیحات ہیں، تعمیراتی شعبے میں نمو 1.3 فیصد رہی جو گزشتہ سال 3 فیصد تھی، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں شرح نمو کم ہو کر 1.5 فیصد رہی۔ برآمدات 6.8 فیصد اضافے سے 27 ارب 30 کروڑ ڈالر پر پہنچ گئیں، ایف بی آر ٹیکس وصولی 25.9 فیصد بڑھ کر 10 ہزار 234 ارب روپے تک پہنچ گئی، سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی سے سٹاک مارکیٹ میں 52.6 فیصد اضافہ ہوا۔اس وقت ملک میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 46 ہزار 604 میگاواٹ ہے ، 56 ہزار نوجوانوں کو آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں تربیت دی جارہی ہے ،نوجوانوں کو مقامی اور بین الاقوامی جاب مارکیٹ کے لیے تیار کیا جارہا ہے ، صنعتی شعبے کی ترقی 4.8 فیصد، گاڑیوں کی صنعت میں 48 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔اقتصادی سروے پیش کرنے کے دوران ایک سوال کے جواب میں سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ جتنا اخراجات پر کٹ لگایا ہے اس سے زیادہ کٹوتی ممکن نہیں تھی، مالیاتی خسارہ بھی 2022 کا دیکھیں اور آج کا دیکھیں تو واضح فرق نظر آئے گا۔
وزیر خزانہ نے ایک سوال پر کہا کہ ہم پرائمری سرپلس کی بات کرتے ہیں، اگر پرائمری سرپلس کا نمبر اتنا زیادہ ہے تو پھر یا ریونیو بہت بڑھ گیا ہے یا اخراجات بہت کم ہوگئے ہیں، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 14 فیصد تک لے کر جانا ہے ، ہمارے ہمسایے ملک بھارت میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 18 فیصد ہے ۔این ایف سی ایوارڈ کا اجلاس اگست میں ہوگا، این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کا فارمولا تبدیل کرنے پر غور ہوگا، صوبوں سے مشاورت ہوگی، اگر پاکستان کی آبادی 40 کروڑ تک پہنچ گئی تو کیا ہوگا؟ ہمیں اس بارے میں سوچنا ہوگا۔وزیرخزانہ نے کہا میں نوکریاں دینے کے نعرے لگانے کے حق میں نہیں ہوں،پاکستان کو موسمیاتی فنانسنگ مل چکی ہے اور اب اس کیلئے منصوبہ بندی کرنا ہو گی تمام وزارتوں کے ساتھ مل کر اس حوالے سے کام کر رہے ہیں،عالمی بینک کے ساتھ کنٹری پارٹنرشپ پروگرام کے تحت پاکستان کو 10 برسوں میں 20 ارب ڈالر ملیں گے، اس میں ایک تہائی فنڈز موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق منصوبوں کیلئے ہیں۔ بہتری کی گنجائش ہمیشہ ہوتی ہے ،کم سے کم تنخواہ پر عملدرآمد کے حوالے سے انفورسمنٹ کا مسئلہ ہے ،ڈھانچہ جاتی اصلاحات ہمیں پائیدار ترقی کی طرف لے کر جائے گی ۔فصلوں کی گروتھ پر موسمیاتی تبدیلی کا کوئی اثر نہیں بالکل غلط ہے ، وزیر خزانہ نے کہا کہ 60سے 70کروڑ ڈالر سالانہ موسمیاتی تبدیلیوں پر خرچ کرنے کے لیے ہوگا۔