مودی مسائل سے نکلنے کیلئے جتنا زور لگا رہے اتنا ہی دھنستے جا رہے

 مودی مسائل سے نکلنے کیلئے جتنا زور لگا رہے اتنا ہی دھنستے جا رہے

(تجزیہ:سلمان غنی) پاک بھارت کشیدگی کے بعد بھارتی جارحیت کے خلاف اپنے موقف سے آگاہی کے لئے بلاول بھٹوکی قیادت میں وفد نے جہاں بھارت کی جارحیت اور جارحانہ عزائم کے خلاف پاکستان کے حقیقت پسندانہ موقف کا اظہار کرتے ہوئے متنازع ایشوز اور خصوصاً مسئلہ کشمیر اور پانی کے ایشو پر مذاکرات پر زور دیا۔۔۔

 وہاں جنگ و جدل اور جارحیت کے خلاف امن کی بات کی اور دنیا کو یہ باور کرایا کہ ہم پہلگام پر بھی تحقیقات اور تعاون پر تیار تھے اور اب بھی جارحیت کے جواب میں ڈائیلاگ کے خواہاں ہیں لہٰذا اس امر کا جائزہ ضروری ہے کہ پاکستان کی سفارتی کوشش کس حد تک کامیاب ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اپنا موقف امریکہ برطانیہ اور خود اقوام متحدہ میں جذباتی انداز میں لڑنے کی بجائے حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے شواہد سامنے رکھ کر بات کی اور اس کے اثرات ملاقاتوں میں نظر آئے جس میں امریکی ذمہ داران اور اقوام متحدہ کے حکام نے پاکستانی موقف کی تائید کی اور متنازع ایشوز کے حل کے لئے پرامن حل کے لئے بات چیت پر متعلقہ ذمہ داران نے اس پر حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اس پر مثبت پیش رفت کا عندیہ دیا اور امریکی حکام اور اقوام متحدہ کے ذمہ داران کا کہنا تھا کہ تنازعات کا حل بامقصد بات چیت کے ساتھ ہی مشروط ہے اور پاکستان کا اس حوالہ سے طرز عمل بہت حد تک حوصلہ افزا ہے ۔

جہاں مختلف طبقات سمیت خود اپوزیشن بھارت کو پیش آنے والی صورتحال اور خصوصاً دس جون کو ملنے والی ذلت و رسوائی پر نریندر مودی سرکار کے سامنے بہت سے سوالات کھڑی کرتی نظر آ رہی ہے اور وہ صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان کو ٹارگٹ کرتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن ان کا یہ حربہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آ رہا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ خود نریندر مودی مسائل کی ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں کہ جتنا زور وہ اس سے نکلنے کے لئے لگا رہے ہیں اتنا ہی وہ اس میں دھنستے چلے جا رہے ہیں جس بنا پر کہا جا رہا ہے کہ بھارت کا جھوٹ پر مبنی بیانیہ ہی اس کے بحران کی اصل وجہ ہے جہاں تک پاکستانی بیانیہ کے کارگر ہونے کا سوال ہے تو اس کے لئے مسلسل سفارتی دبائوکی ضرورت ہے کیونکہ آج کے حالات میں دنیا تب حرکت میں آئے گی جب دنیا کو جھنجوڑا جائے گا اور انہیں یہ باور کرانا ضروری ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کا کوئی حل نہ نکالا گیا تو کشیدگی کا یہ عمل جنوبی ایشیا کے لئے ہی نہیں خود دنیا کے امن کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے ۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ خطے میں پاک بھارت کشیدگی کے رجحانات نے خود بھارت کے اسٹرٹیجک مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور پہلی مرتبہ بھارت کے اندر بعض فیصلوں کے حامل حلقے یہ سوچ بچار کرتے نظر آ رہے ہیں کہ اگر نریندر مودی اور ان کی حکومت کا یہی طرز عمل جاری رہا تو اس سے بھارت کے مفادات کو مزید نقصان کا اندیشہ ہے ۔ امریکی ترجمان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کشمیر جیسے معاملات پر ثالثی کرنا چاہیں لیکن بنیادی ایشو یہی ہے کہ بھارت کیا مذاکرات کی میز پر آئے گا اور اسے صدر ٹرمپ کی ثالثی منظور ہوگی ویسے تو بعض عالمی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ان حالات میں نریندر مودی کے پاس صدر ٹرمپ کوثالث تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا کیونکہ امریکہ کے علاوہ کسی کا اس کے حوالہ سے سافٹ کارنر نہیں اور مستقبل میں کوئی اور سیز فائر کی پوزیشن میں نہیں ہوگا جو بھارت کو کسی ہزیمت سے بچا سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں