دفاعی خود انحصاری میں ایران پاکستان سے سبق سیکھے

دفاعی خود انحصاری میں ایران پاکستان سے سبق سیکھے

تجزیہ:سلمان غنی ایران پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف پاکستان کے جرات مندانہ موقف بارے عالمی میڈیا حیرانگی کا اظہار کرتا نظر آ رہا ہے اور یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ کیا بھارتی جارحیت کے خلاف سرخرو ہونے والا پاکستان خلیج کی لڑائی میں ایران کے ساتھ فریق بنے گا ؟اس حوالے سے مغرب کے بہت تحفظات ہیں۔

 عالم اسلام بھی اس حوالہ سے تقسیم نظر آتا ہے ،سوال یہ ہے کہ پاکستان کا جرات مندانہ موقف کس حد تک حقیقت پسندانہ ہے ،کیا پاکستان اس حوالہ سے امریکی اور عالمی دباؤ کا شکار تو نہیں ہو گا اور کیا پاکستان اسرائیل ایران لڑائی میں عالم اسلام کے اتحاد میں کوئی کردار ادا کر پائے گا ، اسرائیل کی کھلی جارحیت کے بعد کیا یہ مذموم عمل اسلامی ممالک کے لئے پیغام اور چیلنج نہیں جہاں تک پاکستان کے موقف اور حکمت عملی کا سوال ہے تو پاکستان موجودہ حالات میں ایران کی حمایت میں یکسوئی اور سنجیدگی سے کھڑا نظر آتا ہے اور اس کی بڑی وجہ اسرائیل کے حوالہ سے پاکستان کا تاریخی موقف ہے جس میں وہ نہ تو اسے کوئی ریاست تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی ایسی کسی ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے کا سوال ہے اور نہ ہی پاکستان پر ایسا کوئی دباؤ کارگر بنا ہے ، ایران پر اسرائیلی حملہ کے فوری بعد پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے نہ صرف جرات سے اس حملہ کی مذمت کی بلکہ اسرائیلی حملہ کے نتیجہ میں ایرانی عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا اور عالمی قوتوں کو باور کرایا کہ یہ عمل پہلے سے غیر مستحکم خطہ کو مزید غیر مستحکم کر دے گا۔

دوسری جانب سلامتی کونسل میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار اور وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیانات پاکستان کی یکسوئی اور سنجیدگی کا مظہر ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اس خطرہ کو بھی بھانپ گیا ہے جو گریٹر اسرائیل کے منصوبہ کے تحت عالم اسلام کے خلاف جاری ہے ۔لگتا یہی ہے کہ پاکستان اسرائیل کے خلاف ایران سے یکجہتی کا اظہار بھی کرے گا اور اس کی سیاسی و اخلاقی اور سفارتی مدد بھی جاری رکھے گا ۔ایران کو بھی اس بڑی جنگ میں اپنی حکمت عملی پر مسلم ممالک کو اعتماد میں لینا ہوگا،دفاعی خود انحصاری میں ایران پاکستان سے سبق سیکھے ،عالم اسلام کے حکمرانوں کو خود اپنے مفاد میں کسی حکمت عملی کے تعین کے لئے لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا جس کے لئے او آئی سی کا پلیٹ فارم ہی بہترین پلیٹ فارم ہے ۔اسرائیلی طرز عمل کے خلاف اسلامی ممالک یک زبان ہوں ، یہی موقع ہے کہ عالم اسلام نوشتہ دیوار پڑھے اور دنیا کو بتائے کہ مسلم ممالک کے خلاف اس طرح کا حملہ عالم اسلام کے خلاف حملہ تصور ہوگا۔

اس صورتحال میں عالم اسلام پاکستان اور سعودی عرب کی طرف دیکھ رہا ہے لہٰذا عالم اسلام کے اتحاد میں انہیں مل کر کردار ادا کرنا ہوگا اور خود ایران کو بھی سوچنا پڑے گا کہ اس کی اب تک کی حکمت عملی نے ایرانی عوام کو کیا دیا ، ایران عراق جنگ سے اسے کیا ملا ،لہٰذا اسے اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانی ہوگی جذباتی انداز کی بجائے حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کرنا ہوگا اس حوالہ سے اسے پاکستان سے سبق حاصل کرنا چاہئے ۔گہرائی سے حالات کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان نے ایک نظریاتی مملکت کے طور پر اسرائیل کو نہ تسلیم کیا اور نہ ہی اس کے حوالہ سے نرم موقف رکھا یہی وجہ ہے کہ اسرائیل ایران کے بعد پاکستان کو ٹارگٹ کرنے کی بات کر رہا ہے لیکن اسے خود معلوم ہے کہ پاکستان کوئی ترانوالہ نہیں اور اس کی بڑی وجہ اس کا نیو کلیئر پروگرام اور اس کا ذمہ دارانہ کردار ہے جس کو دنیا سراہتی نظر آتی ہے اور پاکستانی عوام بھی مطمئن ہیں تو اس وجہ سے کہ بروقت یہ کام کر لیا تھا حکومتیں بدلتی رہیں اصل کام ہوتا رہا کوئی پھانسی پر چڑھ گیا کوئی ہوا میں تحلیل ہو گیا ، ایرانی ایٹم کے راز افشاں کرنے میں لگے رہے ،وہ اگر نیو کلیئر پاور ہوتے تو اسرائیل کو چڑھ دوڑنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں