ایران اسرائیل جنگ بندی کا مستقبل نازک توازن پر کھڑا

(تجزیہ:سلمان غنی) امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت پر اسرائیل ایران کے درمیان جنگ بندی عمل میں آ چکی ہے اور فی الحال تو جنگ بندی کے اعلان اور اس پر فریقین کی آمادگی کے اظہار کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ دونوں نے پسپائی اختیار کی ہے۔
لیکن تناؤ اور ٹکراؤ کے اثرات کیا ختم ہو پائیں گے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جنگ بندی کا قائم رہنا ایک پیچیدہ اور غیر یقینی عمل ہے کیونکہ فریقین کے درمیان تعلقات کشیدہ اور خطے میں جیو پولٹیکل مفادات سے جڑے ہوئے ہیں تاہم ابھی کچھ عوامل ایسے ہیں جو جنگ بندی کے ممکنہ تسلسل یا خاتمے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اس کی بڑی وجہ فریقین کا ایک دوسرے کی حیثیت کو ہی تسلیم نہ کرنا ہے اور ان کے درمیان پھر سے کوئی واقعہ جنگ بندی پر اثر انداز ہو سکتا ہے ، جنگ بندی پر بعض عالمی و علاقائی قوتوں نے اپنا اطمینان تو ظاہر کیا ہے لیکن ابھی اعتماد میں کمی کے باعث حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ جنگ بندی قائم رہ پائے گی کہ نہیں ، اور اس میں بڑا ایشو جوہری طاقت ہے اور اب بھی یہی سوال کھڑا نظر آ رہا ہے کہ ایران جوہری طاقت بننے سے پسپائی اختیار کر پائے گا تواس کا جواب آسان نہیں ہے ، ایران شاید جوہری پروگرام مکمل طو رپر ترک نہ کرے ،جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ کیا جنگ بندی میں صرف امریکہ اور امریکی صدر ٹرمپ کا کردار ہے تو ایسا نہیں، جنگ بندی میں بعض عالمی علاقائی قوتوں کا بڑا کردار ہے البتہ اس میں مرکزی کردار امریکہ کا ضرور ہے جبکہ چین نے جنگ بندی کی حوصلہ افزائی کی تاکہ اس کے تجارتی مفادات کو نقصان نہ پہنچے ،روس نے البتہ مخالفانہ رویہ اپنایا بظاہر ایران کو حمایت دی مگر براہ راست جنگ بندی کی مخالفت نہیں کی ، جہاں تک پاکستان کے کردار کا تعلق ہے تو براہ راست توایسی کوئی کوشش نظر نہیں آ رہی البتہ پاکستان نے پس پردہ سفارتی سطح پر اہم اخلاقی و سیاسی کردار ضرور ادا کیا۔
ایک طرف تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ علاقائی قوتوں نے جنگ بندی کو سپورٹ کیا تو دوسری طرف یہ سوال بھی کھڑا نظر آ رہا ہے کہ کیا یہ جنگ بندی قائم رہ پائے گی اس کا مستقبل کیا ہوگا تو اس میں بڑا اور بنیادی کردار پھرسے امریکہ کا ہی ہے کیونکہ اب اسے اسرائیل پر دباؤ برقرار رکھنا ہوگا ، دوسری طرف اس کے مستقبل کا انحصار خود عالمی و علاقائی محاذ پر چین ترکیہ اور یورپی یونین کا کردار اہم ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے باوجود ایران اور اسرائیل دفاعی تیاریاں ترک نہیں کریں گے کیونکہ ان پر ایک دوسرے کا خوف طاری رہے گا ۔ دیرپا امن تبھی ممکن ہوگا جب امریکہ اور ایران کے درمیان کوئی معاہدہ ہو اور خصوصاً عالمی قوتیں ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف سرگرم عمل رہیں۔ لہٰذا اب تک کی صورتحال میں کہا جا سکتا ہے کہ جنگ بندی کا مستقبل نازک توازن پر کھڑا ہے ، اگر عالمی و علاقائی قوتیں مسلسل دباؤ اور ثالثی جاری رکھتی ہیں تو ہی جنگ بندی مضبوط ہو سکتی ہے ۔