خواجہ آصف کا ٹویٹ بہت سارے افراد کیلئے خطرے کی گھنٹی
(تجزیہ: سلمان غنی) وزیر دفاع خواجہ آصف بیورو کریسی کے حوالہ سے پرتگال کی شہریت اور یہاں ہونے والی جائیدادوں کی خریدو فروخت کی ٹویٹ کر کے خود تو خاموش ہو گئے۔
لیکن یہ بہت سارے افراد کیلئے خطرے کی گھنٹی بنتا جا رہا اورحکومتی سیاسی اور انتظامی حلقوں میں اس حوالہ سے چہ مگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے کہ آخر کون ہیں جو پرتگال کی شہریت لے رہے ہیں ،کیا وجہ ہے کہ پاکستانی اشرافیہ جن کی یہاں بھی حیثیت ہے تو وہ آخر یہاں سے کیونکر کوچ کرنا چاہتے ہیں ۔افسوسناک امر یہ ہے کہ جب بھی کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف اقدامات ہوتے نظر آتے ہیں تو اس سے اس رجحان میں تو کمی نظر نہیں آتی لیکن کرپشن کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں۔ جہاں تک خواجہ محمد آصف کے بیورو کریسی پر الزام کا تعلق ہے تو کسی حد تک یہ تاثر عام ہے اور اس حوالہ سے حقائق بھی موجود ہیں اور گزشتہ چند سالوں میں بیورو کریسی سمیت بعض اہم اداروں کے ذمہ داران ریٹائرمنٹ کے بعد خود اپنے بچوں اور عزیز و اقارب سمیت مغربی ممالک خصوصاً کینیڈا، امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا سمیت مختلف ممالک میں شفٹ ہوتے نظر آ رہے ہیں ۔افسوسناک امر یہ ہے کہ ان کی وجہ سے پورے کا پورا محکمہ بدنام ہو رہا ہے ۔
دوسری جانب کرپشن کے سدباب کے لئے سرگرم ادارے جن کا کام کرپشن اور لوٹ مار کی بیخ کنی ہوتا ہے لیکن دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اس حوالہ سے کئے جانے والے اقدامات اور اصلاحات اس لئے کارگر نہیں ہوتے کہ خود ان اداروں میں موجود ذمہ داران بھی بالواسطہ طور پر اس عمل کا حصہ بن جاتے ہیں ،اربوں کھربوں میں کھیلنے والے ایسے عناصر قومی سیاست اور اداروں میں نہایت معتبر، موثر اور قابل عزت بنے نظر آ رہے ہیں اور کوئی ان پر ہاتھ ڈالنے والا نہیں ۔خواجہ آصف نے اپنی اس ٹویٹ کے ذریعہ کھلبلی تو مچا دی ہے لیکن دوسری جانب بیورو کریسی میں بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہاہے اور اس حوالہ سے ان کے اندر بھی چہ مگوئیاں جاری ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کسی ادارے کے اندر چند گندی مچھلیوں کی وجہ سے پورے ادارے یا ادارے کی اکثریت کو ٹارگٹ کرنے کا عمل کسی طرح بھی انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں ۔حلقوں کے مطابق وہ سیالکوٹ میں خواجہ آصف کے کار خاص رہے ہیں اور انہیں ہر حوالہ سے خواجہ آصف کی سرپرستی حاصل رہی ہے ۔
ٹویٹ کے بعد ایک نفسیاتی کیفیت طاری ہے ۔ویسے تو دیکھا جائے تو خواجہ آصف نے بیورو کریسی کے حوالہ سے جس خطرناک رجحان کا ذکر اپنی ٹویٹ میں کیا ہے پہلی ذمہ داری تو ان کی ہے کہ وہ حکومت ہوتے ہوئے اس رجحان کا نوٹس لینا مناسب سمجھیں تو اس پر ایک بااختیار کمیشن بنائیں اور قانون سازی کروائیں کہ اہم حکومتی اداروں کے مناصب پر رہنے والے دوہری شہریت حاصل کریں گے تو انہیں اپنی ذمہ داری سے ہاتھ دھونا پڑے گا ۔خود وزیراعظم شہباز شریف کو بھی نوٹس لینا چاہئے ۔نواز شریف سے ملاقات کا سوال ہے تو واقفان حال اس ملاقات کو بھی سیالکوٹ کے اے ڈی سی آر اقبال سنگھیڑا کی گرفتاری کے حوالہ سے قرار دیتے نظر آ رہے ہیں جس کے مطابق چونکہ افسر کی گرفتاری پنجاب حکومت کے احکامات کے تحت ہوئی ہے اور پنجاب کے بعض انتظامی افسر اس تحقیقات میں دلچسپی بھی لیتے نظر آ رہے ہیں، لہذادیکھنا یہ ہوگا کہ پارٹی کے صدر اس حوالہ سے کیا قدم اٹھاتے ہیں۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پنجاب کے ایک انتظامی ذمہ دار نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ جب بھی مذکورہ افسر کو ان کی جگہ سے ٹرانسفر کیا جاتا تو پارٹی کے اور ذمہ دار آڑے آجاتے ، لہٰذا اگر اے ڈی سی آر اقبال سنگھیڑا کے کیس کو خود مسلم لیگ ن اور خصوصاً پنجاب حکومت کیلئے ٹیسٹ کیس کہا جائے تو درست ہوگا ۔لیکن یہ دیکھنا پڑے گا کہ خود بیورو کریسی کے حوالے سے خواجہ آصف کے بیان کو پارٹی قیادت کیسے لیتی ہے ۔ جہاں تک ان کے استعفے کے حوالے سے چہ مگوئیوں کا تعلق ہے تو پارٹی ذرائع اسکی پرزور تردید کرتے نظر آرہے ہیں۔