وزیر اعظم کی میثاق استحکام پاکستان کی دعوت کا مقصد ہم ایک ہیں
(تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے یوم آزادی کے موقع پر سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور سٹیک ہولڈرز کو میثاق استحکام پاکستان کا حصہ بننے کے اعلان کو آج کے حالات خصوصاً اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹنے خصوصاً ملک کو معاشی حوالے سے آگے لے جانے کیلئے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔
جس میں انہوں نے اسے وسیع تر قومی مفاد کی بنیاد قرار دیا ہے اور کہا کہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ اختلافات کے باوجود ملک کے وسیع تر مفاد میں ہم سب ایک ہیں اور ہم ملک میں کسی نئے فتنے کو جنم نہیں لینے دیں گے ۔آج کے حالات میں جب وزیراعظم میثاق استحکام پاکستان کی بات کر رہے ہیں تو اس پر شروعات کیسے ہو گی اور خود اس میں ان کا اور ان کی حکومت کا کردار کیا ہوگا ۔وزیراعظم ملک کو معاشی حوالے سے استحکام پر لانا چاہتے ہیں اور اس حوالہ سے کسی بڑے ایجنڈا پر ہیں، یہ کام سب مل کر ہی کر سکتے ہیں۔اس وقت اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے وزیراعظم شہباز شریف کی پیش کش سے فا ئدہ اٹھانے کی بجائے ان کی پیش کش مسترد کر دی اور یہی طرز عمل جیل میں بند پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کا ہے جو سیاست میں لچک دینے کی بجائے اپنی ضد پراٹکے بیٹھے ہیں اور مذاکرات اور ڈائیلاگ کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے مشروط کئے ہوئے ہیں، لیکن شاید وہ زمینی حقائق پر توجہ نہیں رکھتے ۔پی ٹی آئی نے پاکستان میں جو سلسلہ شروع کیا آج مخالفین کی وجہ سے نہیں اپنے اس طرز عمل اور طریقہ کار کے باعث وہ زد پر ہیں، مشکلات کم ہوتی نظر نہیں آ رہیں، ان کی لیڈر شپ اور ذمہ داران کو سزائیں مل رہی ہیں ۔انہیں بھی باور کرانا چاہئے کہ سیاسی راستہ سیاسی طرز عمل سے نکلے گا، سیاستدان جیلوں میں جاتے ہیں تو واپسی کا راستہ بھی بناتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی نہ اپنے لئے راستہ بنا پا رہے ہیں اور نہ ہی اپنی جماعت اور ساتھیوں کیلئے ریلیف ممکن بن رہا ہے ۔
یہ سب کچھ تب ٹھیک ہوگا کہ جب سیاسی قوتوں کے ساتھ بیٹھا جائے گا۔ بلاشبہ تحریک انصاف اس ملک کی موثر سیاسی قوت ہے اور بانی پی ٹی آئی ایک سیاسی حقیقت ہیں مگر ان کا سیاسی کردار سیاسی طرز عمل سے ہی ممکن ہوگا۔ آج اگر چیف ایگزیکٹو انہیں میثاق پر دعوت دے رہے ہیں تو کیا انہیں مثبت جواب نہیں ملنا چاہئے اور اگر وہ یہ خواہش ظاہر کر رہے ہیں کہ آئیں مل کر دنیا کو پیغام دیں کہ اختلافات کے باوجود ہم سب ایک ہیں۔سیاسی محاذ پر ڈیڈ لاک سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے ۔ معاشی ترقی کا خواب تب ہی پورا ہوگا جب سیاسی استحکام قائم ہوگا ۔سیاست ایک دوسرے کے کردار کو تسلیم کرنے اور ایک دوسرے کو اکاموڈیٹ کرنے کا نام ہے ۔ سیاست میں ضد اور ہٹ دھرمی ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے اور اپنے موقف پر حالات میں تبدیلی کے ساتھ تبدیلی کو حکمت قرار دیا جاتا ہے ۔ سیاست میں جنہوں نے حکمت سے کام لیا وہی سرخرو ہوئے اور سیاست میں ضد دکھانے والوں کو نقصان ہوا۔ آج اگر وزیراعظم شہباز شریف میثاق معیشت سے میثاق استحکام پاکستان پر آ رہے ہیں تو اسی جذبہ کا اظہار اپوزیشن کے ساتھ ہونا چاہئے ۔ تو اگر ملک میں استحکام پر ڈائیلاگ ہو گا تو اس سے اپوزیشن کے لئے ریلیف کا راستہ بھی کھلے گا لہٰذا سیاسی میدان اسی کا ہے جسے سیاست کرنا آتی ہے ۔