لاہور ہائیکورٹ : 80 سال بعد بہن کی اولاد کو جائیداد میں حصے دینے کا فیصلہ کالعدم

لاہور ہائیکورٹ : 80 سال بعد بہن کی اولاد کو جائیداد میں حصے دینے کا فیصلہ کالعدم

لاہور(محمد اشفاق سے)لاہور ہائیکورٹ نے 80سال یعنی قیام پاکستان سے پہلے کا جائیداد کا تنازع حل کردیا عدالت نے بہن کی اولاد کو جائیداد میں حصے دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

جسٹس اسحاق نے قرار دیاکہ قیام پاکستان کے بعد بہن 1988 تک زندہ رہی کبھی عدالتی فورم استعمال نہیں کیا ، وفات کے بعد اولاد 21 برس تک خاموش رہی پھر اچانک 1952 کے معاہدے کیخلاف 2009 میں دعوی ٰ دائر کردیا۔جسٹس خالد اسحاق نے جمشید و دیگر کی اپیل پر 29 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں لکھا کہ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے 1945میں کریم بخش کی بھارت کے موضع براس میں زمین تھی، قیام پاکستان سے پہلے کریم بخش کا انتقال ہوچکا تھا اوراسکے دو بیٹے اور بیٹی قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرکے پاکستان آئے ، کریم بخش کی جائیداد اسکے بڑے بیٹے عبدالغفور کو منتقل ہوئی ،یہ حقیقت ہے کہ عبدالغفور قیام پاکستان کے وقت مارا گیا ۔ فیملی نے سیٹلمنٹ اینڈ ری ہیبلیٹیشن آرڈیننس 1948 کے تحت بھارت میں پراپرٹی کے عوض پاکستان میں پراپرٹی مانگی۔1952 میں متعلقہ اتھارٹیز نے عبدالغفور کی بیگم اور بھائی کو کامونکی میں پراپرٹی الاٹ کرکے تقسیم کردی ۔متعلقہ معاہدے میں عبدالغفور کی بہن غفوراں بی بی کا ذکر نہیں تھا ،ریکارڈ کے مطابق غفوارں 1988 تک زندہ رہی مگر اس معاہدے کیخلاف کسی عدالت سے رجوع نہیں کیا ۔ غفوارں کا بھائی 1985 تک زندہ رہا اور پراپرٹی اسکی اولاد میں تقسیم کردی گئی ۔

غفوراں کی اولاد نے پہلی مرتبہ 2009میں دعوی ٰ دائر کیا ،ٹرائل کورٹ نے 2013 میں غفوراں کی اولاد کا دعوی ٰ مسترد کردیا ۔ اپیل کنندہ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ چیلنج کیا توعدالت نے 2015 میں ٹرائل کورٹ کو دوبارہ دعوے پر فیصلہ کرنے کا حکم دیا ،اپیلٹ کورٹ نے کچھ ہدایات کے ساتھ دعویٰ منظور کرکے ڈگری جاری کردی ، متاثرہ فریق نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا توجسٹس خالد اسحاق نے فیصلے میں کہاکہ عدالت کے سامنے 3 بنیادی سوالات تھے کہ کیا تاخیر سے دعوے پر کارروائی ہوسکتی ہے یا نہیں ؟کیا انڈیا سے منتقل ہوئی پراپرٹی پر شریعت کا قانون لاگو ہوتا ہے یا نہیں ؟کیا 1952 کے معاہدے میں بہن کو حصہ نہ دے کر درست فیصلہ کیا گیا ؟موجودہ کیس میں غفوارں بی بی نے کبھی معاہدے بارے آواز نہیں اٹھائی، وفات کے بعد21 سال اسکی اولاد خاموش رہی اور معاہدے کا ذکر نہیں کیا، اولاد نے اچانک 2009 میں دعویٰ دائر کیا جسکی قانون اجازت نہیں دیتا ، قانون کے مطابق 1952 کے معاہدے میں شریعت ایکٹ لاگو ہوتا تھا، ٹرائل کورٹ نے دعویٰ تاخیر سے دائر ہونے کو یکسر نظر انداز کیا ،عدالت ٹرائل کورٹ کی بہن کی اولاد کے حق میں جاری ڈگری کو کالعدم قرار دیتے ہوئے درخواست گزار کی اپیل منظور کرتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں