اسرائیلی حملہ:قطر کی جوابی حکمت عملی،آپشن عسکری یا سفارتی
(تجزیہ:سلمان غنی) دوحہ پر اسرائیلی حملہ عالم اسلام میں ردعمل کا باعث بنتا نظر آ رہا ہے ،سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی قطر کے دارالحکومت دوحہ آمد کی خبریں ہیں،
یو اے ای کے ولی عہد محمد بن زید وہیں موجود ہیں اور پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف بھی ہنگامی دورہ پر دوحہ سے واپس آ چکے ، جہاں ان کی قطری امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی سے ملاقات ہوئی ، شہباز شریف نے ملاقات میں اسرائیلی حملہ کو عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے پاکستان کی جانب سے قطر اور قطری عوام سے یکجہتی اور کسی بھی جوابی حکمت عملی پر بھرپور سپورٹ کا اعلان کیا، مذکورہ دورہ کو قطر کی سلامتی کے حوالہ سے اہم قرار دیا جا رہا ہے ۔ کیا عالم اسلام کوئی مشترکہ حکمت عملی وضع کر پائے گا اور یہ کہ قطر کی سلامتی و خود مختاری کس حد تک یقینی ہو گی، بلاشبہ دوحہ کے کردار کو عالمی امن و علاقائی استحکام کے حوالہ سے نہایت اہمیت کا حامل قرار دیا جاتا رہا ہے ،دوحہ معاہدہ کے نتیجہ میں ہی افغانستان میں طالبان برسراقتدار آئے اور اب فلسطین میں جنگ بندی کے حوالہ سے پھر سے اس کا کردار اہم تھا اور یہ حملہ اس وقت ہوا جب حماس کے مذاکرات کار امریکا کی جانب سے پیش کی گئی تازہ ترین جنگ بندی کی تجویز پر غور کرنے کے لئے ملاقات کر رہے تھے۔
اسی مشاورتی عمل کے دوران اسرائیل نے حملہ کر کے حماس کی لیڈر شپ کو نشانہ بنایا ، حملہ عالم اسلام کے لئے خاص پیغام سمجھا جا رہا ہے یہی وجہ ہے عالم اسلام کے اہم ممالک کے درمیان اسرائیل کے خطے کے مختلف ممالک پر بلاجواز حملوں اور مسلسل جارحیت پر مشاورتی عمل جاری ہے اور پاکستان بھی اس حوالہ سے سرگرم عمل ہے ،یہی وجہ ہے شہباز شریف نے حملہ کے روز ہی قطری امیر سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے دوحہ حملہ کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے یکجہتی کا اظہار کیا اور مذکورہ حملہ کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اپنے رفقا کار کے ساتھ دوحہ پہنچے ، قطر کے حوالہ سے پیدا صورتحال میں عالم اسلام کے کردار کے حوالہ سے سعودی عرب، ابو ظہبی، کویت و دیگر ممالک تو دوحہ کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں مگر کیا عالم اسلام یہ اسرائیلی حملہ ہضم کر پائے گا ، اس حوالہ سے بنیادی فیصلہ خود قطر کو کرنا ہوگا۔
پہلے پہل تو قطر اور دیگر مسلم ممالک کی کوشش ہوگی کہ اقوام متحدہ او آئی سی اور بڑی طاقتوں خصوصاً امریکا ،چین، یورپی یونین کے ذریعے اسرائیل پر دباؤ ڈالے ،قطر ایران اور ترکی سے دفاعی مشاورت بڑھا سکتا ہے ، قطر کی جوابی حکمت عملی میں اس کی الجزیرہ کی طاقت کا استعمال بھی آپشن ہے تاکہ وہ اسرائیلی حملہ کو اجاگر کرے ۔البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ قطر عالم اسلام کی مدد معاونت کے اظہار کے باوجود عسکری ٹکراؤ سے بچتے ہوئے سفارتی و سیاسی دباؤ بڑھائے گا ، قطر کی درخواست پر پاکستان نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست دی ہے ، قطر پر اسرائیلی حملہ کے حوالہ سے 15ستمبر کو عرب اسلامی سربراہی اجلاس کو غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے ، عرب ممالک کا حصہ نہ ہونے کے باوجود پاکستان کو اسلامی دنیا میں ایک غیر معمولی اہمیت و حیثیت حاصل ہے ،قطر کے حوالہ سے پیدا شدہ صورتحال میں امریکی کردار کو اہم سمجھا جا رہا ہے ،عالم اسلام میں یہ تاثر عام سطح پر پایا جا رہا ہے کہ اسرائیل کیلئے امریکی تائید کے بغیر یہ حملہ ممکن نہیں تھا ،کچھ ماہرین اسرائیلی حملہ کو عالم اسلام میں اتحاد کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ یہ سب کے لئے پیغام تھا اور بڑے اسلامی ممالک پیغام سمجھ چکے ہیں ۔