سیاستدانوں نے اقتدار میں آنے کے نئے راستے تلاش کر لئے
مہنگائی کی ذمہ داری آئی ایم ایف پر ڈال دی جاتی ، عوام کیساتھ عدم وابستگی ہو گئی
(تجزیہ:سلمان غنی)
پاکستان میں جمہوریت کا بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں جمہوریت کے ثمرات مخصوص طبقات خصوصاً اشرافیہ تک محدود نظر آتے ہیں لیکن پاکستان کے کروڑوں عوام کیلئے اس میں کچھ نہیں ،ہر حکومت برسراقتدار آنے سے پہلے ملک میں معاشی ترقی عوام کی حالت زار میں تبدیلی اور گورننس کی فراہمی کے دعوے کرتی نظر آتی ہے کوئی بھی ان کے سامنے خود کو جوابدہ نہیں سمجھتا اور اب تو حکومتیں اور ذمہ داران کھلے طور پر یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ مہنگائی میں کمی میں بڑی رکاوٹ آئی ایم ایف ہے ۔ مطلب کہ حکومت کے بجائے آئی ایم ایف کو کوسا جائے ، اگر مہنگائی میں کمی کا انحصار آئی ایم ایف پر ہے تو حکومت کس مرض کی دوا ہے اور اگر مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے تو یہ کن پالیسیوں کا کیا دھرا ہے آخر کب تک مسائل زدہ عوام مہنگائی کی آگ میں جلیں گے ،بڑی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ عوام حکمرانوں اور سیاستدانوں میں عدم وابستگی کے رجحان نے حالات یہاں لاکھڑے کئے ہیں کہ عوام سیاستدانوں اور سیاسی قوتوں سے امیدیں لگائے ہوئے ہیں اور سیاسی قوتیں عوام کواپنی طاقت سمجھتی ہیں اور اب انہوں نے اقتدار میں آنے کے اور راستے تلاش کر لئے ہیں۔
بلاشبہ کسی حد تک آئی ایم ایف کی شرائط مہنگائی میں اضافہ کا باعث بنتی ہیں لیکن یہ کہنا کہ آئی ایم ایف ہی مہنگائی کے خاتمہ میں بڑی رکاوٹ ہے یہ درست نہیں کوئی حکومت سخت فیصلے خود نہیں کرنا چاہتی ہے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف ہمیں مجبور کر رہا ہے اور سیاسی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ سیاستدان اور حکومتیں آئی ایم ایف کو برا بھلا کہتے ہیں پھر خود اس سے قرض لیتے ہیں اور یہ پاکستان کی سیاست کا مستقل حصہ بن چکا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ریاستی طور پر آئی ایم ایف کو ڈسپلن نافذ کرنے والے ادارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ آج اگر یہ کہا جائے تو بیجانہ ہوگا کہ حکومت نے خود کو مہنگائی جیسے سلگتے ایشو سے بالکل الگ تھلگ کر رکھا ہے اور پہلی دفعہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ خود حکمران بھی مہنگائی بارے سوال پر اس کا گلہ کرتے اور خود کوستے نظر آ رہے ہیں اور خود کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے ۔
ورلڈ بینک کہہ رہا ہے کہ کمزور اصلاحات کی وجہ سے غربت میں کمی نہیں آ رہی ، اشرافیہ کی مراعات ختم کریں اور حقیقی سرمایہ کاری لائیں ، غریب کی جھونپڑی اور ڈرائنگ روم تک یہ فرق ختم کرنا ہوگا ورنہ قوم کا مستقبل تاریک ہے یہ وقت ہے کہ حکومتی ذمہ داران خود سے پوچھیں کہ یہ ملک اشرافیہ کا ہے یا سب کا اور اگر یہ سب کا ہے تو پھر مراعات کا سلسلہ صرف اشرافیہ تک محدود کیوں۔ آخر آئی ایم ایف حکومت کو اشرافیہ پر ہاتھ ڈالنے کو کیوں نہیں کہتا یہ وہ طبقے ہیں جو ریاستی پالیسی پر براہ راست اثر رکھتے ہیں ان میں بڑا زمیندار طبقہ ،رئیل اسٹیٹ، ٹائیکون، بڑے تاجر گروپس، صنعتکار، اشرافیہ ، کارپوریٹ سیکٹر، بینکرز اور کنسٹرکشن ڈویلپر، بیوروکریسی شامل ہے اور ویسے بھی اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ حکومت کا دعویٰ تھا کہ پاکستان کے عوام کافی بوجھ اٹھا سکتے ہیں اب لوڈ پاکستان کی اشرافیہ پر آئے گا لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں آج حالات یہ ہیں کہ حکومت یا اپوزیشن دونوں کیلئے مہنگائی، بیروزگاری، غربت بڑا ایشو بن رہا ہے سب کی سیاست اپنے مفادات اور اپنے کردار کے گرد گھومتی نظر آ رہی ہے ۔