7سال شوہر کا پتہ نہ چلے تو خاتون ازدواجی حیثیت میں آزاد : عدالت
14 سال سے لاپتا شہری عبد الرحمان کی بازیابی درخواست پراہلیہ کو پیش کرنیکا حکم رائے جاننا ضروری،خود آکر بتائیں کہ وہ اب بھی پیروی میں دلچسپی رکھتیں،آئینی بینچ
کراچی (سٹاف رپورٹر)سندھ ہائیکورٹ کے آئینی بینچ نے 14 سال سے لاپتا شہری عبد الرحمان کی بازیابی سے متعلق درخواست میں ان کی اہلیہ کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ نے 14 برس سے لاپتا شہری کی بازیابی کی درخواست کی سماعت کے دوران وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ عبدالرحمان کی کلفٹن کے علاقے میں دوپٹے کی دکان تھی جبکہ 28 نومبر 2011 کو انہیں کاروباری ڈیل کے نام پر فون کال کے ذریعے مزارِ قائد بلایا گیا، جس کے بعد سے ان کے بارے میں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ وکیل نے مزید بتایا کہ عبد الرحمان کی گمشدگی یا اغواء سے متعلق 2017 میں بریگیڈ تھانے میں ایف آئی آر بھی درج ہوچکی ہے۔
جسٹس یوسف علی سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ تو سپریم کورٹ بھی ہو آئے ، اب ہم کیا کرسکتے ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ ہر فورم پر جانے کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور لاپتہ شہری کا سراغ تاحال نہیں مل سکا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اتنی انکوائریاں ہو رہی ہیں، جے آئی ٹی تشکیل دی گئی، اب مزید کیا کیا جائے ؟ جسٹس عبدالمبین لاکھو نے پوچھا کہ لاپتہ شہری کے کتنے بچے ہیں جس پر بتایا گیا کہ لاپتہ شہری کے تین بچے ہیں اور انہی کی اہلیہ نے یہ درخواست دائر کی ہے ۔ بینچ نے ریمارکس دیئے کہ سات سال شوہر کا پتہ نہ چلے تو خاتون ازدواجی حیثیت میں آزاد ہو جاتی ہے ۔ اس پر وکیل نے کہا کہ وہ خاتون کی قانونی ازدواجی حیثیت کے لیے نہیں بلکہ لاپتہ شہری کی بازیابی کے لیے عدالت آئے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ درخواست گزار خاتون کی رائے جاننا ضروری ہے لہٰذا درخواست گزار اہلیہ خود آکر بتائیں کہ کیا وہ اتنے طویل عرصے کے باوجود اب بھی درخواست کی پیروی میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ عدالت نے درخواست کی مزید سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی ہے ۔