احتجاج یا مفاہمت ،گیند اب پی ٹی آئی کے کورٹ میں آگیا
سہیل آفریدی کو سٹریٹ پاور کوتیاررکھنے کی ہدایت پر عملدرآمد ممکن نظر نہیں آتا
(تجزیہ:سلمان غنی)
بانی پی ٹی آئی کی جانب سے پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ سٹریٹ موومنٹ تحریک کے لئے تیار رہیں اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ،یہ پیغام بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان نے گزشتہ روز بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سزا سنانے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے دیا، دوسری جانب تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے اسلام آباد میں قومی مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی قیادت خصوصاً نواز شریف ،فضل الرحمن و دیگر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آئیں مل کر ہم ایک دوسرے کو معاف کریں اور ملک کو آگے لیکر چلیں۔اس سے یہ واضح ہوتاہے کہ بانی پی ٹی آئی طاقت اور قوت کا استعمال چاہتے ہیں لیکن دوسری جانب ان کے ساتھی کسی سیاسی راستہ کی تلاش میں ہیں،لہذاا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کے لئے کوئی سیاسی راستہ بن پائے گااوراس کا رویہ مزاحمتی ہوگا یا مفاہمتی ، جہاں تک وزیراعلیٰ پختونخوا کو سٹریٹ پاور کے بانی کے مشورہ کا سوال ہے تو سٹریٹ پاور کے لئے عوام کے اندر تحریک پیدا ہونا ضروری ہوتا ہے جبکہ خود جماعت کے اندر یکسوئی اور سنجیدگی ناگزیر ہوتی ہے ، لیکن اگر پی ٹی آئی کا جائزہ لیا جائے تو احتجاجی طرز عمل اپنانے کا آپشن نتیجہ خیز نہیں ہوا اور اب پارٹی کے اندر سے بھی ردعمل کا فقدان ہے، البتہ جہاں تک سہیل آفریدی کو دی جانے والی ہدایات کا تعلق ہے تو بلاشبہ وزیراعلیٰ پختونخوا خود کو بانی پی ٹی آئی کی عدالت میں سرخرو کرنے کے لئے بے چین ہیں لیکن زمینی حقائق انہیں اس امر کی اجازت نہیں دیتے ، وہ عشق عمران پر قربان ہونے کا عزم ظاہر کرتے نظر آ رہے تھے لیکن مسند اقتدار پر آنے کے بعد جب اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوا تو وقت گزرنے کے ساتھ ان پر احتجاجی بخار کم ہوتا گیا اور ان کی سرگرمیوں کا مرکز اپنے صوبہ کے انتظامی معاملات رہے ،اب انہیں بانی پی ٹی آئی کا پیغام ملا ہے تو بڑا سوال ہے کہ کیا وہ ان کے اعتماد پر پورا اتر پائیں گے ، کیا وہ اپنی حکومتی طاقت کو احتجاج کے لئے استعمال کر سکیں گے اور اپنے صوبہ کے عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوں گے ؟۔پختونخوا کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مسند اقتدار پر آنے کے بعد سہیل خان آفریدی بھی علی امین گنڈا پور کی پوزیشن پر آ کھڑے ہوئے ہیں اور وہ احتجاج اور اپنی آئینی ذمہ داریوں کے حوالہ سے کنفیوژن سے دوچار ہیں،اس وقت ایسے حالات بھی نہیں کہ وہ اپنے صوبہ کے عوام کو سڑکوں پر لاسکیں، لہٰذا بانی پی ٹی آئی کی ہدایات کو پذیرائی ملتی نظر نہیں آ رہی۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو شاید اب زمینی حقائق کا ادراک نہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ایک کال پر لوگ سڑکوں پر آ جائیں گے اور مرو اور مار دو کی پوزیشن میں ہوں گے ۔حقائق یہ ہیں کہ سہیل آفریدی کے برسراقتدار آنے کے بعد 26نومبر کو گزشتہ سال کے واقعہ کے پس منظر میں بڑے احتجاج کا پروگرام بنایا گیاتھا، اس حوالہ سے تیاریاں بھرپور انداز میں جاری تھیں اور اسلام آباد پہنچنے کے لئے حکمت عملی بھی طے کر لی گئی تھی لیکن انہیں باور کرا دیا گیا کہ اگر اسلام آباد پر چڑھائی کی کوشش ہوئی تو پھر وہ برسراقتدار نہیں رہ سکیں گے اور گورنر راج کا آئینی آپشن استعمال کیا جائے گا ۔گورنر راج کے حوالے سے صوبائی حکومت کو مشورہ دیاگیاکہ وفاق کو کوئی ایسا موقع نہ دیا جائے کہ گورنر راج کا جواز پیدا ہو۔ جس پر سہیل آفریدی نے پسپائی اختیار کرلی ،مطلب وہ ایسا رویہ نہیں اپنائیں گے جس سے حکومت کوگھر کا راستہ دیکھنا پڑے ۔ علیمہ خان کے پیغام پر یہ کہاجاسکتاہے کہ سٹریٹ پاور کا استعمال بانی پی ٹی آئی کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن اس پر عملدرآمد اتنا آسان نہیں رہا اوربانی پی ٹی آئی کی خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ اسلام آباد میں محمود خان اچکزئی کا خطاب بتا رہا ہے کہ وہ بھی کسی احتجاج کے موڈ میں نہیں ہیں اور اب وہ سیاسی قیادت خصوصاً نواز شریف، فضل الرحمن و دیگر کو مخاطب کرتے ہوئے یہ التجا کرتے نظر آ رہے ہیں کہ آئیں مل کر بیٹھیں اور ایک دوسرے کو معاف کریں اور ملک کو آگے لیکر چلیں،مطلب مسئلہ خود اپوزیشن کے اندر ہے اور اپوزیشن اس حوالہ سے یکسو نہیں ہو پا رہی کہ مشکل صورتحال میں اسے کیا کرنا ہے ۔ سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو مشکل حالات اور مقدمات سے نجات ہمیشہ سیاستدانوں کو سیاسی طرزعمل اختیار کرنے سے ہی ملتی ہے جس کی سب سے بڑی مثال نواز شریف ہیں جبکہ بانی پی ٹی آئی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اپنی سیاسی طاقت اور احتجاج کا زعم ہے لیکن اس سے نتیجہ حاصل نہیں ہورہا۔بانی پی ٹی آئی نے بات چیت کا اختیار محمود خان اچکزئی اور علامہ ناصر عباس کوسونپا ہے تو اب وہ احتجاج یا احتجاجی تحریک کی بجائے مل بیٹھنے اور مل کر سوچنے اور ایک دوسرے کو معاف کر کے آگے بڑھنے کی بات کر رہے ہیں ،کیا انہیں اس مفاہمتی روئیے پر بانی پی ٹی آئی کی تائید حاصل ہے ۔ نواز شریف اور فضل الرحمن کو مل بیٹھنے کا مشورہ تودے دیاگیالیکن یہ دونوں لیڈر بانی پی ٹی آئی کے ہاتھوں بڑے زخم کھائے ہوئے ہیں ،لہذا ڈیڈ لاک توڑنے کی ذمہ داری بانی پی ٹی آئی کولیناہوگی ،ان کی جانب سے سیاسی طرز عمل کا مظاہرہ کرنے سے ڈیڈ لاک کی جگہ ڈائیلاگ لے سکتا ہے ۔گیند پی ٹی آئی کے کورٹ میں ہے کہ کیا وہ سیاستدانوں سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ اور اگر وہ واقعتاً اس حوالہ سے سنجیدہ ہیں تو پھر ڈیڈ لاک ٹوٹ سکتا ہے ،معاملات آگے چل سکتے ہیں ،ایک دوسرے کو معاف کیا جا سکتا ہے ،محمود خان اچکزئی کو چاہئے کہ جو اپیل وہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن سے کر رہے ہیں وہ بانی پی ٹی آئی سے بھی کر دیکھیں اور ان کے سوال کے جواب سے انہیں معلوم ہو جائے گا کہ ان کی کوششیں کامیاب ہو سکی ہیں یا نہیں۔