سیاسی معاشی مسائل کا حل مذاکرات:موجودہ حالات میں جرات کیساتھ بات کرنی چاہئے:اعظم نذیر فساد سے ملک آگے نہیں بڑھ سکتا:راناثنا،نواز شریف کو کردارادا کرنا پڑیگا:سعد رفیق

سیاسی معاشی مسائل کا حل مذاکرات:موجودہ حالات میں جرات کیساتھ بات کرنی چاہئے:اعظم نذیر فساد سے ملک آگے نہیں بڑھ سکتا:راناثنا،نواز شریف کو کردارادا کرنا پڑیگا:سعد رفیق

کوتاہیاں سب سے ہوئیں ، ڈائیلاگ کسی سیاسی جماعت،شخص یا گروہ کیلئے نہیں ملک کیلئے ہوں:وزیر قانون ، سزاؤں کا سلسلہ،ملاقاتوں پر پابندی کو ختم ہونا چاہیے :مشیر وزیر اعظم کیا سب وزیراعظم غدار اور سب جج اور چیف محب وطن تھے ، عمران خان کی کوئی ضمانت دینے کو تیار نہیں :سعد رفیق ،لیاقت بلوچ ودیگر کا خواجہ رفیق کے یوم شہادت پر سیمینار سے خطاب

 لاہور (نمائندہ دنیا، نیوز ایجنسیاں ، مانیٹرنگ ڈیسک )وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سیاسی و معاشی مسائل کا حل قومی ڈائیلاگ ہے ،موجودہ حالات میں کھل کر بات کرنے اور جرات کے ساتھ مسائل پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کوتاہیاں سب کی رہی ہیں اور ان پر مثبت انداز میں بات ہونی چاہیے ،تنقید کو برداشت کرنا اور اختلاف رکھنے والوں کی رائے سننا ترقی کا واحد راستہ ہے ۔خواجہ رفیق کے 53 ویں یوم شہادت پرسیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پاکستان کو سیاسی اور معاشی استحکام کیلئے قومی سطح پر ڈائیلاگ اور سیاسی میثاق کی ضرورت ہے ،سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے ساتھ کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ عدم استحکام کے ساتھ کوئی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ایسے فورمز وقت کی ضرورت ہیں، جہاں مختلف مکاتبِ فکر کے نمائندے موجود ہوں، جن میں علما، مشائخ، صحافت، سیاست اور سول سوسائٹی شامل ہیں تاکہ اجتماعی سوچ سامنے آسکے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان آج ایک ایسے سیاسی میثاق کا متقاضی ہے جو کسی ایک فرد، جماعت یا گروہ کیلئے نہیں بلکہ پوری قوم ، آنے والی نسلوں اور ملک کیلئے ہو۔

ملک بنانے والے دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن وطن کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام کی بنیادی وجہ مکالمے سے انکار ہے ۔ اگر سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھنے کو تیار نہیں ہوں گی تو ملک آگے نہیں بڑھے گا۔ سیاسی استحکام سے ہی معاشی استحکام ممکن ہے ۔ان کا کہنا تھا کسی بھی ملک و قوم کے آگے بڑھنے کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے ،سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتیں اس پر دو ٹوک اور واضح موقف کیوں نہیں اپنا تے کہ سیاسی مکالمے سے کونسی جماعت انکاری ہے ؟۔ پی ٹی آئی کے دوسرے درجے کی قیادت خود کہتی ہے اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ سیاسی مکالمہ ہونا چاہئے لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ نہیں مانتے اور اپنے گالم گلوچ بریگیڈ کے خوف سے اپنا نام بھی ظاہر نہیں کرتے ۔ یہ بات درست ہے کہ لڑائی جھگڑا اور فساد سے کوئی قوم آگے نہیں بڑھ سکتی لیکن اس بات کی نشاندہی بھی کرنی ہوگی کہ کون ہے جو ملک میں سیاسی مکالمہ کرنے کو تیار نہیں اور سیاسی استحکام نہیں چاہتا۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد پر مسلح لوگوں کیساتھ حملہ کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ پھر پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ انتخابات پر بات ہوئی اور معاملات طے ہوگئے ،پی ٹی آئی قیادت نے کہا کہ ہمیں بانی پی ٹی آئی سے اجازت لینی ہے لیکن ان کو اجازت نہیں ملی، کیا قانون اس طرح فساد کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔

جب عظمیٰ خان سے ملاقات ہوئی اس کے بعد باہر آکر انہوں نے جو گفتگو کی اور ٹویٹ ہوا یہ بھی پوری قوم کے سامنے ہے ۔رانا ثنا نے کہا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اس وقت آتا ہے جب ملک میں سیاسی جماعتیں مکالمہ ترک کریں اور تصادم کا راستہ اختیار کریں۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا 25جولائی 2018 کے انتخابات درست ہوئے تھے ،اس کے باوجود ہم آپ کے ساتھ بیٹھنے اور مذاکرات کرنے کو تیار ہیں،ملک کیلئے میثاق معیشت کرنے کو تیار ہیں اور بلاول بھٹو نے بھی اس بات کی تائید کی لیکن اس کے بعد جو بانی پی ٹی آئی نے کہا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔رانا ثنا نے کہا کہ دفاعی تنصیبات پر حملہ بہت غلط تھا،25 مئی کو اسلام آباد پرحملہ کیا گیا، ایک پارٹی کے عہدیدار مسلح لوگوں کو ساتھ لے کر آئے ، اگر وہ حملہ نہ ہوتا تو اسمبلی مدت پوری کرتی اور الیکشن ہوتے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سزاؤں کا سلسلہ،ملاقاتوں پر پابندی کو ختم ہونا چاہیے مگر اس کا تعین اسی وقت ہوسکتا ہے جب کوئی باز آئے گا۔مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سعد رفیق نے کہا کہ بانی تحریک انصاف عمران خان کی کوئی ضمانت دینے کو تیار نہیں، اِس وقت نوازشریف کو کردار ادا کرنا پڑے گا، نوازشریف سب سے بڑے ہیں، انہیں آگے آکر بات کرنا پڑے گی، بات کریں تاکہ مخالفین پر پریشر کم ہو۔

طاقت کا استعمال ریاست کو آگے لے کر نہیں جاسکتا، یہاں پاکستان بنتے ہی فوجی جرنیلوں،جاگیرداروں کا گٹھ جوڑ بن گیا، پاکستان بنانے والوں کو ملک دشمن، غدار کہا گیا۔ آئین کو پامال کرنے والوں کو سلیوٹ مارے گئے ۔ان کا کہنا تھا سوچتا ہوں کیا پاکستان کے سب وزیراعظم غدار تھے ، کیا سب جج اور چیف محب وطن تھے ، جمہوریت ہمارے خمیر میں ہے ، یہ قوم جمہوریت سے مایوس نہیں ہے ، میں اول و آخر مسلم لیگی ہوں۔جس دن جیل سے نکلا اسی دن کہا تھا کہ انتقام نہیں لوں گا۔سعد رفیق نے کہا تحریک انصاف نے ہماری ساری پارٹی پر ایکشن کیا، جب کسی کو سزا ہوتی ہے مجھے کبھی خوشی نہیں ہوتی، ہم نے سیاست کو دائو پر لگا کر ریاست کو بچایا، لڑائیوں میں پاکستانیوں کا اور کتنا وقت ضائع ہوگا۔سیاست دانوں کا کام ہے کہ وہ اپنے آپ کو اہل ثابت کریں ، ہم نے پاکستان کیلئے پیپلزپارٹی کو برداشت کیا، ہمیں لوگوں سے بات کرنا ہوگی، بانی تحریک انصاف کی اپنی غلطیاں بہت ہیں، دوبار ہم گئے لیکن بانی تحریک انصاف نہیں مانے ، اگر وہ اپوزیشن میں چلے جاتے تو نہ 9 مئی ہوتا نہ وہ جیل میں ہوتے ۔

پاکستان بندوق سے نہیں ووٹ کی طاقت سے بنا، لڑائی اور تصادم ریاست کو آگے نہیں لے جا سکتے ، بات چیت ہی مسائل کا حل ہے ۔ہمیں آج نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان سیاسی اور معاشی استحکام کی راہ پر گامزن ہو سکے ۔قومی قیادت کے پاس بھی جائیں ،قومی لیڈر شپ کے پاس جائیں اور قومی ڈائیلاگ کا راستہ کھولا جائے ، نوابزادہ نصرا اللہ خان اس ملک کی ایسی شخصیت تھے جوایسے مواقعوں پر متحرک ہوتے اور ہر ایک کے پاس جاتے اور کسی نہ کسی شکل میں جمہوریت کی پٹڑی پر کھڑا رکھنے کی کوشش کرتے ۔ لیاقت بلوچ نے کہاکہ آج سیاستدانوں میں سے ہر ایک کی تمنا ہے کہ ان کے نکاح میں آؤں ،چاہے نکاح میں نہ رکھیں ساتھ رکھیں ، یہ تمنا نہیں کہ بے دخل ہو جائیں، یہ تمنا ہے کہ مجھے ساتھ ملا لیں ، لڑائی غلامی کی ہے مجھے غلامی میں قبول فرما لیں ، اگر یہی لڑائی اور آرزو رہے گی، یہی رہے گا تو اس سے بھی بد تر ہو گا۔ سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ لیاقت بلوچ کہہ رہے ہیں نواز شریف قیادت کریں ، اکٹھا کریں ، اگر نواز شریف یہ کام کریں تو اچھی بات ہے لیکن آپ خود ہی کر لیں ۔9 مئی کے مقدمات میں فوجی تنصیبات پر حملے کئے گئے جن کی شدید مذمت کرتا ہوں] اس کی بالکل اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ،کوئی جذبات میں بہہ گیا ،مس لیڈ ہو گیا ہے لیکن دو ، تین سال جیل کاٹ لی ہے ۔

رہنماؤں کو دس ،دس سال قید کی سزائیں ،پھر قید کی سزائیں،آپ کہاں تک لے کر جائیں گے ،جنگ میں فوجیں آپس میں لڑتی ہیں پھر مذاکرات کی میز پر بیٹھ جاتی ہیں،65اور71کی جنگوں کے بعد کیا معاہدے نہیں ہوئے ، کیا ہم اپنے اندر کوئی معاہدہ نہیں کر سکتے ،ان لوگوں کو معافی نہیں دے سکتے ،ان میں بزرگ ہیں، بیمار ہیں،خواتین ہیں،رحم کر دیں انہیں اپنے معاملات درست کرنے کا موقع دیدیں ، قوموں کو درگزر سے کام لینا پڑتا ہے رحم دلی سے بھی کام لینا پڑتاہے ،آخر ہم کب تک تماشے لگاتے رہیں گے ،لازم ہے کہ اقتدار کی سیاست سے اوپر اٹھ کر دیکھیں ۔اگر ہمیں آج دلدل سے نکلنا ہے تو خواجہ رفیق شہید کی روح بھی یہی تقاضا کر رہی ہے ،جو اہل اقتدار ہیں انہیں پہل کرنا ہو گی ،جو ساتھ نہیں چلنا چاہتے ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں ،سیاستدان ایک دوسرے کو جینے کا حق دیں ،ایک دوسرے کو زندہ رہنے دیں،ایک دوسرے سے ہاتھ ملائیں تو جب چاہیں گے ہائبرڈ نظام ختم ہو جائے گا ۔ سینئر صحافی حامد میر سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا۔ تقریب میں اراکین قومی وصوبائی اسمبلی اور لیگی کارکنوں کی کثیر تعداد موجود تھی ۔ دیگر مقررین نے بھی خواجہ محمد رفیق شہید کی جمہوری جدوجہد کو خراجِ عقیدت پیش کیا، تقریب کے اختتام پر اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ خواجہ رفیق شہید کے نظریات کے مطابق جمہوریت، آئین اور عوامی حقِ حکمرانی کی جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں