لاہور ہائیکورٹ : پراپرٹی آرڈیننس معطل : قانون برقرار رہتا تو جاتی امرا بھی آدھے گھنٹے میں خالی کرالیا جاتا : چیف جسٹس عالیہ نیلم

لاہور ہائیکورٹ : پراپرٹی آرڈیننس معطل : قانون برقرار رہتا تو جاتی امرا بھی آدھے گھنٹے میں خالی کرالیا جاتا : چیف جسٹس عالیہ نیلم

چیف سیکرٹری صاحب!آپکا بس چلتا تو آئین بھی معطل کر دیتے ،جن پٹواریوں کو اختیارات دئیے یہی کل قبضہ گروپس کیساتھ مل جائینگے :ریمار کس،قبضوں کو واپس کرنے کے احکامات پراپرٹی ایکٹ کی بعض شقیں آرٹیکل10سے متصادم ، مزید کارروائی کیلئے فل بینچ بنایا جائے ،ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے اعتراف کیا کہ کمیٹیوں نے اختیارات سے تجاوز کیا:عبوری تحریری حکم لوکل گورنمنٹ ایکٹ کیخلاف درخواستوں کی سماعت، بلدیاتی الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہونگے :حکومتی وکیل ، اچھا نہیں لگتا صوبے کا حق دفاع ختم کریں، آج جواب جمع کرائیں:جسٹس سلطان تنویر

لاہور (کورٹ رپورٹر،اے پی پی )چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم نے پنجاب پروٹیکشن آف اونرشپ آف امووایبل پراپرٹی آرڈیننس 2025 کے نفاذ کو معطل کردیا اوراس آرڈیننس کے خلاف دائر تمام درخواستوں پر اعتراضات دور کرتے ہوئے سماعت کیلئے فل بینچ تشکیل دینے کی سفارش کر دی، جبکہ مذکورہ آرڈیننس کے تحت دئیے گئے قبضوں کو واپس کرنے کے احکامات بھی جاری کر دئیے۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت چیف سیکرٹری پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ چیف سیکرٹری صاحب حکومت کو بتائیے اگر کسی نے جاتی امراکے خلاف درخواست دی تو ،پھر تو ڈی سی اس کے حق میں بھی فیصلہ کرسکتا اور جاتی امرا بھی آدھے گھنٹے میں خالی کرا لیا جاتا، آپ چاہتے ہیں تمام اختیارات آپکو دیدئیے جائیں،آپ کا بس چلتا توآپ آئین کو بھی معطل کر دیتے ،آپ نے سول سیٹ اپ ،سول رائٹس اورعدالتی سپرمیسی کو ختم کردیا۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے عابدہ پروین سمیت دیگر کی درخواستوں پرپنجاب پراپرٹی اونرشپ آرڈنینس کے خلاف کیس کی سماعت کی، عدالتی حکم پر چیف سیکرٹری پنجاب عدالت پیش ہوئے ۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے پیش نہ ہونے پر چیف جسٹس نے ناراضی کا اظہار کیاا ور استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل کدھر ہیں ؟ ۔سرکاری وکیل نے بتایا امجد پرویز بیمار ہیں اس لئے پیش نہیں ہوسکے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میں بھی بیمار ہوں ،مجھے بیڈ ریسٹ کہا گیا مگر یہاں بیٹھی ہوں ،چیف سیکرٹری صاحب لگتا ہے آپ نے یہ قانون نہیں پڑھا؟، لگتا ہے کچھ لوگوں کی خواہش ہے انہیں تمام اختیارات دے دئیے جائیں، یہ قانون بنا کیوں ؟،اس کا مقصد کیا ہے ؟ ۔ جب کوئی معاملہ سول عدالت میں زیرِ سماعت ہو تو ایک ریونیو افسر کس طرح جائیداد کا کیسے قبضہ دلا سکتا ہے ؟ ۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر ڈی سی آپ کے گھر کا قبضہ کسی اور کو دے دے تو آپ کے پاس اپیل کا کوئی حق نہیں ہوگا، آپ کایہ قانون کہتا ہے ہائیکورٹ اس معاملے پر حکم امتناعی بھی جاری نہیں کر سکتی، موبائل فون پر آپ کہتے ہیں آجاؤ ورنہ تمہارا قبضہ چلا گیا، آپ یہاں کھڑے ہیں اور آپ کا گھر جارہا ہوگا؟، قانون کے مطابق جس نے شکایت کردی وہی درخواست گزار ہوگا، کیا یہاں جعلی رجسٹریاں اور جعلی دستاویزات نہیں بنتیں؟ ۔چیف جسٹس عالیہ نیلم نے قرار دیا کہ اگر آپ کا پٹواری جعلی دستاویزات نہ بنائے تو سول عدالتوں میں اتنے کیسز دائر ہی نہ ہوں، قانون کے تحت آپ نے ڈسپیوٹ ریزولیوشن کمیٹی بنائی ، آپ کی کمیٹی لوگوں کو ڈراتی دھمکاتی ہے ، آپ کے کمیٹی ممبران لوگوں کو کہتے ہیں کہ قبضہ نہ دیا تو باہر پولیس کا ڈالہ کھڑا ہے ۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کمیٹی ممبران کہتے ہیں کہ دس دس سال قیدکی سزا دیں گے ، آپ نے ہمارے سول جج کو دیکھا ہے ؟ ،کیسے خاموشی سے بیٹھا ہوتا ہے ، قاضی کا فرض خاموشی سے اپنا کام کرنا ہوتا ہے ، عدالت دل سے نہیں بلکہ دماغ سے فیصلے سے کرتی ہے ، آپ کے ڈی سیز خواہشات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔چیف جسٹس عالیہ نیلم نے چیف سیکرٹری سے پوچھا کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ تمام اختیارات آپ کو دے دئیے جائیں، کیا آپ اس قانون کا دفاع کر رہے ہیں؟ ۔سرکاری وکیل نے بتایا کہ ڈی سیز کو قبضے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سینکڑوں کیسز ہیں جہاں ڈی سیز نے قبضے دئیے ہیں ، اس قانون کے تحت میں یہاں بیٹھی ہوں، کوئی درخواست دے اور میرے گھر کا قبضہ بھی ہوجائے گا، جن پٹواریوں کو آپ نے اختیارات دئیے یہی کل کو قبضہ گروپس کے ساتھ مل جائیں گے۔

چیف جسٹس نے پنجاب پراپرٹی اونر شپ آرڈیننس پر عملدرآمد روکتے ہوئے درخواست پر فل بینچ تشکیل دینے اور آرڈیننس کے تحت دئیے گئے قبضوں کو واپس کرنے کے احکامات جاری کر تے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔دریں اثنا چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے پراپرٹی آرڈیننس پر عملدر روکنے سے متعلق2صفحات پر مشتمل عبوری تحریری حکم جاری کردیا، 56 درخواستوں پر جاری تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹی کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ تمام پراپرٹیز کا درخواستیں دائر کرنے سے پہلے کا سٹیٹس بحال کرے ،عدالتی احکامات تک پراپرٹی اونر شپ آرڈیننس پر کارروائی معطل رہے گی، ایکٹ کی بعض شقیں آئین کے آرٹیکل10سے متصادم ہیں، درخواستوں پر مزید کارروائی کیلئے فل بینچ بنایا جائے ،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو عدالتی معاونت کیلئے 27 اے کا نوٹس جاری کیا جاتاہے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ 18دسمبر کو آرڈیننس اسمبلی سے منظور ہوکر ایکٹ بن چکا ، کمیٹیوں کو پراپرٹی واگزار کرانے کا اختیار نہیں تھا۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے اعتراف کیا کہ کمیٹیوں نے اختیارات سے تجاوز کیا، پراپرٹی پر قبضے کا فیصلہ ٹربیونلزنے کرنا تھا،آج کی تاریخ تک کوئی ٹربیونلز نہیں بنے ۔واضح رہے مذکورہ آرڈیننس 31 اکتوبر کو پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے منظور کیا تھا، جس کے تحت ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں قائم کمیٹیوں کو جائیداد کے تنازعات کے فیصلے کا اختیار دیا گیا تھا اور تنازعات کو 90 دن میں نمٹانے کی شرط رکھی گئی ہے۔

لاہور (کورٹ رپورٹر)لاہور ہائیکورٹ میں پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 ء کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے بیان دیا ہے کہ بلدیاتی الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہوں گے اور پارٹی ٹکٹ بھی جاری ہوسکیں گے ۔تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سلطان تنویر نے پی ٹی آئی ،جماعت اسلامی سمیت دیگر کی جانب سے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025  (صفحہ7بقیہ نمبر12)

کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت کی۔درخواست گزاروں کی جانب سے اظہر صدیق اور ابوذر سیلمان نیازی ایڈووکیٹس جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی جی لاء کمیشن خرم شہزاد پیش ہوئے ۔دوران سماعت محکمہ لوکل گورنمنٹ نے اپنی رپورٹ عدالت جمع کرائی جبکہ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کے بیان پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن غیر جماعتی نہیں ہونگے ؟،جس پر حکومتی وکیل نے اثبات میں جواب دیا۔عدالت نے درخواستگزاروں کے وکیل کو مخاطب کرتے کہا کہ اظہر صاحب اگر محکمہ یہ کہہ رہا ہے پھر آپکا کیا موقف ہے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اگر حکومت یہ کہہ رہی ہے تو پھر ہماراکیس اس حد تک ختم ہوگیا، آپ سرکاری وکیل کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنادیں۔

عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیاکہ آپ پریشان نہ ہوں ،تسلی سے بتائیں، پریشر میں نہ آئیں۔ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن خرم شہزاد نے بیان دیا کہ الیکشن کمیشن اپنا فرض نبھانے کو تیار ہے ، گزشتہ چار برسوں میں بلدیاتی الیکشن کرانے کیلئے حکومت کو 80 کے قریب خطوط لکھے ، حکومت جو بھی ایکٹ لائے گی ہم اس کے تحت الیکشن کرانے کے پابند ہیں، پنجاب حکومت نے بلدیاتی الیکشن کے انتظامات کیلئے ہمیں 10 جنوری کی ڈیڈ لائن دی ہے ۔عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل آفس سے جواب جمع نہ کرانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل آفس نے درخواست پر جواب جمع کیوں نہیں کرایا؟،اگر آپ جواب جمع نہیں کرائیں گے تو کیس کیسے آگے بڑھے گا۔

عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ اعتراض یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ 2025 ئکی کچھ شقیں آئین سے متصادم ہیں، ایکٹ کے مطابق الیکشن غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے ، آپ نے 10 جنوری کی ڈیڈ لائن دی ،حلقہ بندیوں، اعتراضات پر بہت وقت لگتا ہے، مان لیجئے اگر عدالت سے فیصلہ آپکے خلاف آیا تو تمام انتظامات پر آنے والا خرچ ضائع ہوگا ،ہم نے سپیشل نوٹس بھی جاری کیا تھا، اس کا جواب جمع کرائیں یہ اچھا نہیں لگتا کہ ہم صوبے کا حق دفاع ختم کریں، آپ منگل کو(آج)جواب جمع کرائیں تاکہ کیس کا فیصلہ ہوسکے ، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور الیکشن کمیشن کو آج(منگل کو )جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں