فضائوں پر دہائیوں راج کرنیوالی پی آئی اے کی نجکاری آج، بولی کا عمل لائیو نشر کیا جائیگا
75فیصد حصص کی نجکاری ،25فیصد حکومت کے پاس رہیں گے ، تین کنسورشیم حصہ لیں گے ، بولیاں صبح 10:30بجے جمع کرائی جائیں گی،خریدار 80ارب روپے کی فوری سرمایہ کاری کریگا جہازوں کی تعداد 19سے بڑھا کر 40کرنا ہوگی، خریداری پر سیلز ٹیکس چھوٹ حاصل ،آئی ایم ایف سے منظوری ہوچکی، خریدار پارٹی نئے بزنس پلان پر مکمل عملدرآمد کرنے کی پابند ہو گی
اسلام آباد (مدثر علی رانا)دنیا کی فضائوں پر دہائیوں راج کرنے والی پاکستان کی قومی ایئرلا ئن پی آئی اے کی نجکاری آج ہوگی جس کے لیے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ بولی دہندگان کی طرف سے سیل شدہ بولیاں صبح 10:30 بجے جمع کرائی جائیں گی۔ سہ پہر 3:30بجے بولی دہندگا ن کی موجودگی میں بولیاں کھولی جائیں گی۔نجکاری کا عمل وزیرِ اعظم کے شفافیت کے ویژن کے مُطابق تمام ٹی وی چینلز، حکومتِ پاکستان اور پرائیویٹائز یشن ڈویژن کے متعلقہ سوشل میڈیا ہینڈلز سے براہ راست نشر کیا جائے گا۔نئے بزنس پلان کے مطابق ملازمین کو ایک سال نوکری پر رکھا جائے گااور ایک سال بعد ملازمین کی تعداد کم کر دی جائے گی۔ خریدار پارٹی کو 80ارب روپے تک کی فوری سرمایہ کاری کرنا ہوگی اور جہازوں کی تعداد 19سے بڑھا کر 40 کی جائے گی،جہازوں کی خریداری پر سیلز ٹیکس چھوٹ حاصل ہوگی۔ پری کوالیفائیڈ کمپنیوں کے ساتھ بزنس پلان طے پا گیا ہے اور پی آئی اے کی نجکاری کے لیے پری کوالیفائیڈ کمپنیوں کے مطالبات پورے کیے جا چکے ہیں۔
جہازوں کی خریداری پر سیلز ٹیکس چھوٹ کی بھی آئی ایم ایف سے منظوری ہو چکی ہے۔ پی آئی اے کے ذمہ اس وقت تقریباً ڈیڑھ سو ارب روپے قرض ہے۔ بزنس پلان کے مطابق خریدار پارٹی کو فلیٹس کی تعداد 19 سے بڑھا کر 40 کرنی ہوگی اور نئے بزنس پلان پر مکمل عملدرآمد کرنا ضروری ہوگا۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں نے پی آئی اے ملازمین کو پانچ سال تک نوکری پر رکھنے کی سفارش کی تھی۔ قومی ایئر لائن کے 75 فیصد حصص فروخت کرنے سے حاصل ہونے والی رقم میں سے 92.5 فیصد پی آئی اے میں سرمایہ کاری اور 7.5 فیصد رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے گی۔ پی آئی اے کے 25 فیصد حصص حکومت کے پاس رہیں گے ، کامیاب بولی دہندہ کو ادائیگی کے بعد باقی 25 فیصد حصص خریدنے کا اختیار ہوگا۔
پی آئی اے کی خریداری کے لیے تین کنسورشیم بولی کے عمل میں حصہ لے رہے ہیں،کنسورشیم ون میں لکی سیمنٹ، حب پاور، کوہاٹ سیمنٹ اور میٹرو وینچرز شامل ہیں، کنسورشیم ٹو میں عارف حبیب، فاطمہ فرٹیلائزر، سٹی سکولز اور لیک سٹی ہولڈنگز ہیں جبکہ کنسورشیم تھری میں ایئر بلیو پرائیویٹ لمیٹڈ شامل ہے، چوتھا کنسورشیم فوجی فرٹیلائزرز نیلامی کے عمل سے دستبردار ہو چکا ہے ۔گزشتہ سال 31 اکتوبر کو پی آئی اے کی نجکاری کے لیے 10 ارب روپے کی بولی لگی تھی جبکہ حکومت نے گزشتہ نجکاری پر پی آئی اے کی ریزرو پرائس 80 ارب روپے مختص کی تھی۔ بولیاں موصول ہونے کے بعد نجکاری کے عمل کو طے شدہ ضوابط کے مطابق مکمل کیا جائے گا۔
ماضی میں دنیا کی بہترین ایئرلائن پی آئی اے کی تنزلی کا آغاز 1980 کی دہائی میں ہوا۔ نجکاری مکمل ہونے پر پی آئی اے کی بحالی کی نئی امید پیدا ہوئی ہے ۔1947 میں اوریئنٹ ایئرویز کے آپریشنل آغاز کے دو ماہ بعد پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور قومی ایئر لائن بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 10 جنوری 1955 کو اوریئنٹ ایئرویز کو پی آئی اے میں ضم کر دیا گیا۔ پی آئی اے کی پہلی بین الاقوامی سروس 1955 میں شروع ہوئی اور مختصر ہوائی بیڑے سے شروع ہونے والی یہ ایئر لائن دنیا کی صف اول کی فضائی کمپنیوں میں شمار ہونے لگی۔1960 میں پی آئی اے ایشیا کی پہلی ایئر لائن بنی جس میں بوئنگ 707 شامل ہوا۔ مختصر عرصے میں پی آئی اے کا آپریشن یورپ سمیت دنیا کے چار براعظموں تک پھیل گیا۔ پی آئی اے نے دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں سے ایک ‘ایمریٹس’ کو بھی اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں کردار ادا کیا۔اس وقت قومی ایئرلائن کے پاس 33 جہاز ہیں ۔دوسری طرف 320 پائلٹس سمیت ادارے کے سات ہزار ملازمین ہیں۔
ذرائع کے مطابق پی آئی اے کے پاس ہر ہفتے 20 ممالک کی 170 فلائٹس کے روٹس موجود ہیں اور ایئر سروس ایگریمنٹ کے تحت 97 ملکوں میں سفر کے معاہدے ہیں۔ پی آئی اے کے پاس دبئی، سعودی عرب، لندن، کینیڈا، بیجنگ، مسقط، دوحہ، شارجہ اور ابوظہبی کے روٹس ہیں جبکہ کوالالمپور، استنبول، کویت اور بحرین کے روٹس بھی میسر ہیں۔پی آئی اے کے ذمہ 800 ارب روپے سے زائد قرض میں سے تقریباً 660 ارب روپے حکومت نے ہولڈنگ کمپنی میں سٹاک کر دئیے ہیں تاکہ نجکاری اور روزویلٹ ہوٹل کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے ادائیگیاں کی جا سکیں۔اعلامیہ میں کہا گیا کہ پی آئی اے کی بولی کے لیے ریفرنس قیمت کی منظوری پرائیویٹائزیشن کمیشن بورڈ اور کابینہ کمیٹی برائے نجکاری دے گی۔ نجکاری کے عمل کو طے شدہ ضوابط کے مطابق مکمل کیا جائے گا۔ پی آئی اے کی نجکاری وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے معاشی اصلاحات کے ایجنڈے کے تحت کی جا رہی ہے اور حکومت شفاف، قابل اعتماد اور مستند عمل کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے ۔