اصل لڑائی تحریک انصاف اور مقتدرہ کے درمیان نظر آتی
سیاسی راستہ صرف سیاسی طرزِ عمل اختیار کرنے سے ہی نکل سکتا ہے
(تجزیہ: سلمان غنی)
اپوزیشن کی دو روزہ قومی مشاورت اور مذاکرات کی اپیل کے ساتھ ہی بانی پی ٹی آئی کی جانب سے آنے والے ٹویٹ اور حسبِ روایت اس میں سکیورٹی اداروں کی لیڈر شپ کو ٹارگٹ کرنے کے عمل اور سٹریٹ پاور کے استعمال کے اشاروں نے سب کچھ دھرے کا دھرا رہنے دیا۔ یوں ظاہر ہو گیا کہ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ تو پھر بات کیسے آگے چلے گی؟ ملک میں مفاہمتی سیاست کیسے فروغ پائے گی؟ اگر اپوزیشن کے اعلامیے پر نظر دوڑائی جائے تو اس میں شامل نکات، خصوصاً غیر جانبدار الیکشن کمیشن، نئے انتخابات کی بات اور نئے میثاقِ جمہوریت کی ضرورت، روایتی مطالبات ہیں جو ہر اپوزیشن کی جانب سے سامنے آتے ہیں۔ مگر جب اپوزیشن کے لیے لچک پیدا ہوتی ہے تو یہ ایجنڈا بھول کر حکومت میں آنے کی خواہش غالب آ جاتی ہے ۔ جہاں تک 8 فروری کو یومِ سیاہ منانے کے اعلان کا تعلق ہے تو اس موقع پر بھی کسی بڑے احتجاج کی توقع نہیں، یہ بھی روایتی احتجاج تک ہی محدود ہو گا۔البتہ اہم سوال یہ ہے کہ بانی تو اپنی ضد اور موقف پر لچک دینے کو تیار نہیں۔
وہ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو سٹریٹ پاور کے استعمال کی ہدایت دیتے اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں، تو پھر اپوزیشن کی مذاکرات کی خواہش کے بارے میں کیا کیا جا سکتا ہے ؟ ۔جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ جن مذاکرات کی خواہش ظاہر کی جا رہی ہے ، ان کا ایجنڈا کیا ہو گا، تو اس حوالے سے کچھ بھی واضح نہیں۔ حکومت چاہے گی کہ اپوزیشن احتجاجی موڈ سے نکلے اور موجودہ سیٹ اپ کو تسلیم کرے ، تب ہی آگے بات ہو سکتی ہے ۔ مگر اپوزیشن اس حکومت کو کیسے تسلیم کرے گی اور آنے والے انتخابات تک صبر کیسے کرے گی؟ یہ ممکن نظر نہیں آتا۔یوں اصل لڑائی حکومت اور اپوزیشن کے بجائے پی ٹی آئی اور مقتدرہ کے درمیان نظر آتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ نہ بانی پی ٹی آئی کو ریلیف مل رہا ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی کے لیے سیاسی راستہ بن پا رہا ہے ۔بانی کی خواہش ہے کہ سیاسی طاقت اسلام آباد پر چڑھ دوڑے اور ہنگامی صورتحال پیدا کر دی جائے ، حکومت اڈیالہ جیل کے باہر ہاتھ باندھے کھڑی ہو اور بانی پی ٹی آئی جو چاہیں وہ ہو جائے ۔ یہ سب خواہشات ہیں۔اب ملک میں یہ تاثر عام ہے کہ پی ٹی آئی کا مسئلہ صرف بانی کی رہائی اور ان کے لیے ریلیف ہے ، عوامی مسائل سے انہیں کوئی خاص سروکار نہیں۔ اسی لیے عوام کسی احتجاجی تحریک کا ایندھن بننے کو تیار نہیں۔ اسلام آباد مارچ جو کبھی پی ٹی آئی کا مطمحِ نظر رہا، گزشتہ سال کے واقعات کے بعد اب ان کے لیے ایک بھیانک خواب بن چکا ہے ۔ریاست یہ طے کر چکی ہے کہ کسی کو بھی اسلام آباد پر اثر انداز نہیں ہونے دیا جائے گا، اور اس حوالے سے مستقل بنیادوں پر حکمتِ عملی موجود ہے ۔ لہٰذا مذکورہ حالات میں پی ٹی آئی کے لیے کوئی راستہ بنتا نظر نہیں آتا۔
جہاں تک احتجاج کی کال دینے کے اختیار کا تعلق ہے تو محمود خان اچکزئی اور علامہ ناصر عباس کو پی ٹی آئی کی احتجاجی طاقت کا بخوبی اندازہ ہے ، اور خود پی ٹی آئی کے اراکین بھی اپنی سیاسی حیثیت اور اہمیت سے واقف ہیں۔ اس لیے مستقبلِ قریب میں کسی بڑی سٹریٹ پاور کا امکان نہیں، نہ ہی حالات کسی احتجاجی تحریک کے لیے سازگار ہیں۔یہی زمینی حقائق ہیں اور یہی نوشتۂ دیوار ہے ، جسے جتنی جلد پڑھ لیا جائے اتنا بہتر ہے ۔ سیاسی راستہ صرف سیاسی طرزِ عمل اختیار کرنے سے ہی نکل سکتا ہے ، مگر شاید بانیٔ پی ٹی آئی اس کے لیے تیار نہیں۔