جبری دوتہائی اکثریت نہیں مانتے، ریاست اعتدال کی طرف آئے : فضل الرحمٰن

جبری دوتہائی اکثریت نہیں مانتے، ریاست اعتدال کی طرف آئے : فضل الرحمٰن

جامعات کیخلاف عالمی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں میں تسلسل ، ایک بار پھر مدارس کی بقاء کا سوال پیدا ہوگیا ،قائد جے یو آئی مدارس کو پابند کرنیکی کوشش ناکام بنادی ، مفتی تقی عثمانی ،آئین سیکولر بنانے کی کوشش ہورہی:اسعد محمود،حنیف جالندھری

ملتان (کرائم رپورٹر )جمعیت علمائاسلام کے قائدمولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ آج ایک بار پھر مدارس کی بقائکا سوال پیدا ہوگیا ہے ،عالمی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں میں مدرسے کیخلاف ایک تسلسل ہے ،اس بات پر متفق ہیں کہ ریاست کیخلاف ہتھیار نہ اٹھائے جائیں لیکن ریاست بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لائے علماء انبیاء کے وارث ہیں جمعیت کی پشت کو مضبوط بنانا ہوگا ہم نے عملی میدان میں کام کرنا ہے گھروں میں بیٹھ کر کچھ نہیں ہوگا ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے مدرسہ قاسم العلوم گلگشت ملتان میں فضلاء کنونشن سے خطاب کے دوران کیا ،مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ ہمیں شدت پسند کہا جاتا ہے ،مدرسہ شدت پسندی کا سبب نہیں ہے اور نہ ہی انتہا پسندی کا سبب ہے ،ہم ریاست کیخلاف ہتھیار اٹھانے کے قائل نہیں ہیں،لیکن حکومت بھی تو بندے کا پتر بنے، ہمارے ساتھ مذاکرات ہوئے کہ اکتیس دسمبر 2027 تک سودی نظام ختم ہو جائے گا۔

1860 کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت دینی مدارس کی رجسٹریشن کا قانون بنایا گیا لیکن تاثر دیتے ہیں کہ مدرسے بغیر رجسٹریشن کے چل رہے ہیں،کہا جاتا ہے مدرسے انتہا پسندی شدت کا باعث بنتے ہیں۔مدرسے سے نہیں تمہارے رویے سے شدت پیدا ہوتی ہے ،مذہبی طبقہ کو اشتعال دلوایا جاتا ہے ریاست بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لائے ،ریاست سے توقع رکھتے ہیں کہ اعتدال کی طرف آئے جبکہ ستائیسویں ترمیم بغیر مشاورت کے ہوئی،اب ان کے پاس دو تہائی اکثریت کہاں سے آئی پہلے تو ہمارے ووٹوں پر منحصر تھے ہم اس جبر کی دو تہائی اکثریت اور جمہوریت کو نہیں مانتے ،انہوں نے کہا کہ افسوس ہوتا ہے کہ اسلامی ملک کا حکمران زنا کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے اور نکاح کے لئے مشکلات پیدا کرتا ہے مدرسہ شریعت اور سیاست کا بتاتا ہے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے لئے قانون بنایا گیا مدرسے کی رجسٹریشن میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے مدرسوں کو بند کرنے کی بات کی جاتی ہے اکابرین نے جو مدارس قائم کئے وہ علم کا عملی نمونہ ہیں امریکا اور مغربی دنیا مدارس کے خلاف ہے ان کا تم پر دباؤہے کہ مدارس کو ختم کریں جے یو آئی اور وفاق المدارس نے اپ کی اس خواہش کو ناکام بنا دیا ہے۔

مفتی محمد تقی عثمانی نے کہا کہ ریاست دینی مدارس کے معاملے پر نظر ثانی کرے ہم حکومت کے اس طرح مخالف نہیں کہ ہر بات مانے یا ہر بات کی مخالفت کرے دینی مدارس پر کوئی آ نچ نہیں آ نے دیں گے مدارس پر قبضہ کرنے کی کوشش پہلی بار نہیں کی جارہی ۔ مدارس قومی خزانے پر بوجھ نہیں ہیں کوشش ہو رہی ہے کہ مدارس کو کسی طرح پابند کیا جائے مدارس کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی کوشش کی جا رہی ہے حکومت مدارس کے معاملے پر سنجیدگی سے کام لے اگر سنجیدگی نہ دکھائی تو مسئلہ ایسے ہی بنا رہے گا ۔ مولانا اسعد محمود نے کہا کہ اسلامی آ ئین کو سیکولر آ ئین میں تبدیل کرنے کے لئے آ ج بھی جدوجہد جاری ہے لیکن جے یو آئی جیسی قیادت سیاسی محاذ پر اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہی ہے ۔ قاری محمد حنیف جالندھری نے کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت علماء کی عزت میں کمی نہیں کر سکتی، دینی مدارس کی آزادی و خود مختاری پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں