اسمبلی کا 225 گھنٹے اجلاس، 283 توجہ دلائو نوٹس، 53 قراردادیں لیپس

 اسمبلی کا 225 گھنٹے اجلاس، 283 توجہ دلائو نوٹس، 53 قراردادیں لیپس

5808 سوالات کے جوابات نہ آ سکے ،اہم معاملات پر 11کی 11تحریکِ التوا مسترد عوام کے معاملات پر پارلیمان میں کوئی بحث ہوئی اور نہ ہی مفادِ عامہ کا کوئی کام ہوا

 اسلام آباد (سہیل خان) رواں سال 2025 میں پارلیمان حقیقی شراکت دار عوام سے ویران رہا۔ انتہائی کم تعداد میں مہمانوں کو وزٹ گیلری کے کارڈز جاری کیے گئے ۔ دوسری طرف پارلیمانی بزنس دھڑا دھڑا جمع ہوتا رہا اور اس پر بیدردی سے تلوار چلتی رہی۔ اپوزیشن لیڈرز سے پارلیمان محروم رہی۔پارلیمانی جمہوری نظام میں وقفۂ سوالات حکومتی احتساب کا مؤثر ذریعہ ہوتا ہے ۔ ریکارڈ یہ ٹوٹا کہ قومی اسمبلی میں 5808 سوالات کے جوابات نہ آ سکے ۔ کل 7563 سوالات جمع ہوئے اور صرف 1755 کے جوابات آئے ۔ عوامی معاملات سے براہِ راست تعلق رکھنے والے 283 توجہ دلاؤ نوٹسز لیپس ہو گئے جبکہ کل 336 توجہ دلاؤ نوٹسز جمع ہوئے ۔

توجہ دلاؤ نوٹسز کے متاثرین میں رکنِ قومی اسمبلی اور خاتونِ اول آصفہ بھٹو زرداری بھی شامل ہیں۔ آصفہ بھٹو زرداری کا اسلام آباد بین الاقوامی ایئرپورٹ کو بے نظیر بھٹو سے منسوب کرنے کا نوٹس پیش ہونے سے قبل ہی سال کے آخری اجلاس کو عجلت میں ملتوی کر دیا گیا۔قومی سمیت دیگر اہم معاملات پر 11 کی 11 تحریکِ التواء مسترد ہو گئیں یعنی پیش کرنے کی اجازت ہی نہ ملی۔ بھاری مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کی فکر حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو بلا تفریق لاحق رہی۔ قاعدہ 259 کے تحت 240 تحریکیں بھی مسترد ہو گئیں۔عوام کو قراردادوں کے ذریعے بھی تسلی تشفی نہ دی جا سکی اور کل 78 میں سے 53 قراردادیں لیپس ہو گئیں۔ محرکین نے بھی شاید زیادہ پروا نہ کی۔

پی ٹی آئی کے احتجاج کے جواب میں حکومت کی جانب سے پارلیمان کے حوالے سے کوئی خاص کارکردگی نظر نہیں آئی تاہم قومی اسمبلی میں 225 گھنٹے سے زائد کارروائی ہوئی۔ سیاسی لڑائیوں میں سال گزر گیا۔ عوام کے معاملات پر پارلیمان میں نہ کوئی بحث ہوئی اور نہ ہی مفادِ عامہ کا کوئی خاص کام ہوا۔ اراکین کے غیر ملکی دوروں کی تعداد ضرور بڑھ گئی۔سیاسی قیدیوں کے معاملات پر پارلیمانی نوٹس نہ لینے کے باعث یہ نوبت آئی کہ عالمی پارلیمانی یونین اور اقوامِ متحدہ میں ان کی بازگشت سنائی دی۔ عوام کے لیے کسی کو شور شرابا یا ہنگامہ کرتے نہیں دیکھا گیا۔ بعض مواقع پر پیپلز پارٹی نے حکومت کو آنکھیں ضرور دکھائیں مگر پھر جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔پی ٹی آئی دونوں ایوانوں میں عمران خان کی رہائی کی جنگ لڑتی رہی اور قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی اور رکنیت سے مستعفی ہو گئی جس کے بعد اب اہم فورمز پر یکطرفہ کارروائی کا سلسلہ جاری ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں