غزوہ خیبر
اسپیشل فیچر
چودہ سو برس قبل مدینہ منورہ کے شمال میں 100میل دور ایک شہر خیبرواقع تھا۔یہاںقلعے اورکھیتیاں کثیر تعداد میں تھیںاور یہاں یہودی آباد تھے۔ رسول اکرمﷺ جب جنگ احزاب کے نتیجے میں قریش مکہ کو سبق سکھانے سے فارغ ہوئے تو انھوں نے خیبر کے یہودیوں اور نجد کے قبائل سے بھی نمٹنا ضروری سمجھا تاکہ پورا خطہ امن وسلامتی کا گہوارہ بن جائے اور اسلام کے علمبردار اطمینان وسکون اور یکسوئی سے اللہ کا پیغام ساری دنیا کے انسانوں تک پہچانے میں مصروف ہوسکیں۔ رسول اکرم ﷺ کی نگاہ انتخاب سب سے پہلے خیبر پر پڑی کیونکہ یہاں کے لوگ سازشوں اور قبائل کولڑانے بھڑانے کا خوب کام کرتے تھے۔ یہ اہل خیبر ہی تھے جنھوں نے جنگ خندق میں مشرکین کے تمام گروہوں کو مسلمانوں پر چڑھائی کرنے کیلئے ابھارا،پھر بنوقریضہ کو اسلامی ریاست مدینہ سے غداری پر آمادہ کیاتھا۔ یہ لوگ منافقین یعنی بنو غطفان اور بدووں سے مکمل رابطے میں تھے۔ اسی دوران اہل خیبرخود بھی مسلمانوں سے بڑی جنگ کرنے کی تیاری کرتے رہے تھے۔ ان کی مختلف کارروائیاں مسلمانوں کیلئے مسائل پیداکر رہی تھیں۔انھوں نے رسول اکرم ﷺ کو شہید کرنے کا منصوبہ بھی تیار کیا۔مسلمان ان فتنہ پروروںکی سرکوبی کیلئے مختلف چھوٹی مہمات ترتیب دیتے رہے تھے تاہم بڑی مہم اس لئے شروع نہیں کررہے تھے کہ ابھی سب سے بڑے دشمن گروہ قریش سے نمٹنا تھا۔رسول اکرمﷺ نے حدیبیہ سے واپسی پرذی الحج کا پورامہینہ اور محرم کے ابتدائی چند روز مدینہ میں گزارے،پھراللہ کے حکم سے اپنے لشکر میں لوگوں کو خوب چھان پھٹک کرشامل کیا اورکسی منافق کو قریب بھی نہیں پھٹکنے نہ دیا۔ صرف وہی 1400افراد شریک سفر ہوئے جنھوں نے حدیبیہ میں درخت کے نیچے بیعت رضوان کی تھی۔ اس کے بعد خیبر کی طرف چل پڑے۔ پیچھے سے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے اہل خیبر کو فوراً اطلاع کردی’’ اب محمدؐ نے تمہاری طرف رخ کیاہے لہذا چوکناہوجائو، تیاری کرلو اور دیکھنا ڈرنا نہیں کیونکہ تمہاری تعداد اور تمہارا سازوسامان زیادہ ہے اور محمدؐ کے رفقا بہت تھوڑے اور تہی دست ہیں اوران کے پاس ہتھیار بھی بس تھوڑے ہی سے ہیں‘‘۔ اطلاع ملنے پر یہودیوں نے فوراً بنوغطفان سے مدد طلب کی اورانھیں پیشکش کی کہ اگر مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہوگیا تو خیبر کی پیداوار کا نصف انھیں دیاجائے گا۔ لالچ کے مارے بنوغطفان فوراًیہودیوں کی مدد کیلئے خیبر کی طرف بھاگ اٹھے۔ ان کا لشکر روانہ ہواہی تھا کہ انھیں اپنے علاقے میں کچھ شور سنائی دیا۔ انھوں نے سمجھا کہ مسلمانوں نے ان کے بال بچوں اور مویشیوں پر حملہ کردیاہے۔ چنانچہ وہ یہودیوں کی مدد کا ارادہ ترک کرکے واپس لوٹ آئے۔خیبر میں داخلے کیلئے دو راستے تھے۔ اول: مدینہ سے سیدھے خیبر ، دوم : شام کی طرف سے ۔ رسول اکرمﷺ نے دوسراراستہ اختیارکیا تاکہ مسلمانوں کا لشکر بنوغطفان اور یہودیوں کے درمیان ہو اور بنوغطفان یہودیوں کی مدد کیلئے نہ آسکیں اور یہودی علاقہ چھوڑ کر شام کی طرف نہ فرارہوسکیں۔یہودیوں نے لشکراسلامی کے خیبر پہنچنے کا جو حساب کتاب لگارکھاتھا، مسلمان اس سے بہت پہلے ان کے سروں پر پہنچ گئے۔ اہل خیبر اپنا سازوسامان لے کر اپنے کھیتوں کی طرف روانہ ہورہے تھے کہ انھوں نے اسلامی لشکر دیکھا، وہ خوب بدحواس ہوئے ، چیخیں مارتے ہوئے اپنے شہر کی طرف بھاگے کہ خدا کی قسم! محمدؐ اپنے لشکرسمیت پہنچ گئے ہیں۔ یہ منظردیکھ کر اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا’’ اللہ اکبر، خیبر تباہ ہوا۔ اللہ اکبرخیبرتباہ ہوا۔ جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترپڑتے ہیں تو ان ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہوجاتی ہے۔جب لشکر خیبر کے اس قدرقریب پہنچا کہ شہر نظر آنے لگا تو آپﷺ نے ایک مقام پرٹھہرکر اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور پھر لشکر کو بسم اللہ پڑھ کر پیش قدمی کاحکم دیا۔لشکررات گئے خیبر کے مزید قریب پہنچ گیا۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا’’ میں کل جھنڈا ایک ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتاہے اور اللہ اوراس کے رسولؐ اس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ اگلی صبح ہرکوئی تمنا کررہاتھا کہ جھنڈا اسے ہی ملے گا۔ رسول اکرمﷺ نے حضرت علیؓ کی بابت استفسارفرمایا۔ لوگوں نے کہاکہ ان کی آنکھ دکھ رہی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:’’ انھیں بلالائو‘‘۔ حضرت علیؓ خدمت اقدسؐ میں حاضرہوئے تو آپ ﷺ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھ پر لگایا، آنکھ فوراً اس طرح شفایاب ہوگئی ، گویاکوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔ اس کے بعد آپﷺ نے انھیں کچھ ہدایات دے کر جھنڈا تھمادیا۔خیبرکا علاقہ دوحصوں پر مشتمل تھا۔ پہلے حصے میں قابل ذکر پانچ قلعے تھے جبکہ دوسرے میں تین ۔ ان کے علاوہ بھی کچھ مزید قلعے اور بستیاں بھی تھیں۔ جنگ پہلے حصے میں ہوئی ۔مسلمانوں نے سب سے پہلے قلعہ ناعم پر حملہ کیا۔ یہ یہودیوں کی دفاعی لائن کی حیثیت رکھتاتھا اور مرحب نامی شہ زور کا تھا۔ اسے ایک ہزار مردوں کے برابر سمجھا جاتا تھا ۔ مرحب اپنے لشکریوں کے ساتھ اسلامی لشکر کے سامنے آکھڑا ہوا۔ حضرت علیؓ نے اسے اسلام کی دعوت دی جواس نے مستردکرتے ہوئے دعوت مبارزت دی۔ حضرت عامرؓ مرحب کے مقابل میدان میں اترے، وہ چھوٹے قد کے تھے۔ انھوں نے مرحب کی پنڈلی پر وارکیا تو تلوار کا سرا پلٹ کر ان کے اپنے گھٹنے پر آلگا۔ ان کے زخمی ہونے کے بعد حضرت علیؓ میدان میں اترے اور انھوں نے مرحب کا خاتمہ کردیا۔ اس کے بعد فریقین کے درمیان ایک طویل لڑائی ہوئی۔ جب یہودی بھرپور مزاحمت کے باوجود مسلمانوں کو پیچھے نہ دھکیل سکے تو انھوں نے خفیہ راستوں سے آہستہ آہستہ ایک دوسرے قلعہ صعب کی طرف بھاگنا شروع کردیا۔ مسلمانوں نے قلعہ ناعم پر قبضہ کرنے کے بعد قلعہ صعب کامحاصرہ کر لیا۔ اسے تین روز تک گھیرے رکھا۔ بالآخریہاں بھی لڑائی ہوئی اور مسلمان فاتح ہوئے۔ اگلا قلعہ زبیر پہاڑی کی چوٹی پر واقع تھا۔ یہاں سواروں اورپیادوں کو رسائی حاصل کرنے میں مشکل پیش آئی۔اس کے محاصرے کو تین دن گزرے توایک یہودی نے آکر رسول اکرمﷺ سے کہاکہ آپؐ ایک مہینہ بھی محاصرہ کرلیں تو کامیابی نہیں حاصل کرسکتے۔ البتہ قلعہ کے لوگ پانی لینے کے بعد نیچے چشموں کا رخ کرتے ہیں، پانی بند کر دیا جائے تو یہ گھٹنے ٹیک دیں گے۔ رسول اکرم ﷺ نے لشکریوں کو چشموں پر قابض ہونے کا حکم دیاتو قلعہ والے لڑائی پر اترآئے لیکن لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلنے پر مجبور ہوگئے ۔ قلعہ زبیرسے بھاگنے والوں نے قلعہ ابی میں پناہ لی۔ اس کا بھی محاصرہ ہوا، لڑائی ہوئی اور مسلمان فاتح ہوئے۔یہاں سے بھاگنے والے یہودی قلعہ نزار میں اس یقین سے چھپ گئے کہ مسلمان کسی بھی صورت میں اس قلعے پر کبھی قابض نہیں ہوسکتے۔تاہم مسلمانوں نے اسے بھی فتح کیا، اس کے بعد خیبر کا باقی علاقہ معمولی لڑائی یاپھر مذاکرات کے نتیجے میں مسلمانوںکے ہاتھ آگیا۔باقی ماندہ یہودی سرداروں نے اس شرط پر مسلمانوں سے صلح کرلی کہ ان کی فوج کی جان بخشی کردی جائے گی، ان کے بال بچے انہی کے پاس رہیں گے یعنی انھیں لونڈی اور غلام نہیں بنایاجائے گا۔ وہ اپنے بال بچوں کو لے کر خیبر کی سرزمین سے نکل جائیں گے اور اپنے اموال ، باغات، زمینیں، سونے، چاندی ، گھوڑے، زرہیں، رسول اللہﷺ کے حوالے کردیں گے، صرف اتنا کپڑا لے جائیں گے جتنا ایک انسان کی پشت اٹھاسکے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ اگر تم لوگوں نے مجھ سے کچھ چھپایا تو پھر اللہ اور اس کے رسولؐ بری الذمہ ہوں گے‘‘۔ اس جنگ میں 16مسلمان شہید ہوئے جبکہ یہودی مقتولین کی تعداد 93 تھی ۔ خیبر کی فتح پر غیرمعمولی مقدار میں مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔ قیدیوں میں ایک مقتول یہودی سردار کی دلہن صفیہ سمیت بہت سی عورتیں بھی شامل تھیں۔صفیہ اسلام قبول کرکے رسول اکرمﷺ کی زوجیت میں آئیں اور ام المومنینؓ بن گئیں۔ اسی اثناء میں ایک یہودی خاتون نے زہرآلودگوشت پیش کرکے رسول اکرمﷺ کو شہید کرنے کی سازش کی، آپﷺ نے ایک لقمہ منہ میں ڈالا لیکن زہریلامحسوس کرکے اگل دیا۔ یہودی خاتون کو طلب کیاگیا، اس نے یہ کہتے ہوئے اقرارجرم کیا ’’ میں نے سوچا کہ اگریہ بادشاہ ہے تو ہمیں اس سے راحت مل جائے گی اور اگرنبی ہے تو اسے خبر دیدی جائے گی۔ اس پر آپﷺ نے اسے معاف کردیا۔ فتح خیبر محرم الحرام میں ہی ہوئی تاہم اس کی صحیح تاریخ کے بارے میں مورخین خاموش ہیں۔ اس فتح کے بعد اردگرد کے علاقے بھی مسلمانوں نے فتح کئے۔اس طویل مہم سے مدینہ میں واپسی صفر کے اواخر یاربیع الاول کے اوائل میں ہوئی۔٭٭٭