ذمہ دار شہری کی خوبیاں
اسپیشل فیچر
ہم میں سے ہر کوئی اپنی ذمہ داریوں کو ڈیوٹی سمجھ کر نہیں عبادت سمجھ کر نبھائے اور اپنی کردار و گفتار کوسیرت نبوی ﷺ کے سانچے میں ڈھالے تو یقینامعاشرے کی تقدیر وتصویر بدل جائے گی۔ جس معاشرے سے ہم اور آپ تنگ آ چکے ہیں وہی معاشرہ ہمارے اور آپ کے لئے سکون قلب کاباعث اور روح پر ور ثابت ہوگا۔ آپ جس مقام پر بھی ہیں آپ پر کچھ ذمہ داریا ں عائد ہوتی ہیں۔ معلم انسانیت ﷺ نے فرمایا ’’ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ (رواۃ البخاری)۔ اگر آپ باپ ہیں تو اولاد کی تربیت کی ذمہ داری آپ پر ہے۔ اس میں اچھی تربیت اوراس کی تعلیم پر توجہ دینا شامل ہے۔آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اسکول میں کن دوستوں کے ساتھ رہتا ہے۔ اسے اگر آپ نے ایک اچھا اور معاشرے کا ذمہ دار شہری بنا دیا تو آپ کا حق ادا ہو گیا۔ اگر اولاد ہیں تو والدین کی ذمہ داری آپ پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘۔ ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے، ’’تیرے رب نے یہ فیصلہ کر دیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو‘‘۔ اولاد ہونے کے ناتے اس کا فرض اور ذمہ داری ہے کہ والدین کی زندگی میں ان کے لیے دعائے خیر کرے اور وفات کے بعد ان کے لیے دعائے مغفرت کرے۔ ماں باپ اولاد کے لیے اپنی خواہشات کو قربان کر دیتے ہیں مگر اپنی اولاد کی خواہشات کو پورا کرتے ہیں۔ اس لیے اولاد کا فرض ہے کہ ان کی خدمت میں کوئی کمی نہ آنے دے۔ اگر آپ کسی کے شوہر ہیں تو بیوی کی اصلاح اورنان ونفقہ کی ذمہ داری آپ پر ہے اور اگر آپ بیوی ہیں تو شوہر کی اطاعت آپ کے ذمے ہے۔ اگر پڑوسی ہیں تو اپنی خوشیوں میں انہیں شامل کرنا آپ کا اخلاقی فریضہ ہے اور انہیں کسی طرح کی اذیت نہ دینا آپ کا معاشرتی فریضہ ہے۔ اگر وہ غمزدہ ہیں تو ان کی مزاج پرسی کرنا اور غم میں شریک ہونا حسن معاشرہ ہے۔ آپ معلم ہیں تو طلبہ کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری آپ پر ہے۔ معلم طلبہ کو اچھے اور برے میں فرق بتاتا ہے۔ انہیں زندگی کے مقصد سے آگاہ کرتا ہے۔ ایک معلم اگر اپنے پیشے سے مخلص ہو گا تو وہ اپنے شاگردوں کو اچھی اخلاقی تربیت دے سکے گا۔ انہیں کبھی غلط رستے کی تعلیم نہ دے گا۔اسی طرح ایک طالبعلم پر اساتذہ کی توقیر وعزت کرنے جیسی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ استاد ہمیں ایسی بہت سی چیزیںسکھاتا ہے جو ہمارے والدین بھی نہیں سکھاتے۔ استاد کی عزت ایسے کرو جیسے اپنے والدین کی کرتے ہو۔ایک دفعہ مشہور خلیفہ ہارون الرشید نے دیکھا کہ اس کے دو بیٹے اس بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ کون استاد کے جوتے اٹھا کر لائے گا۔آخر کار استاد کے کہنے پر وہ ایک ایک جوتا اٹھا لایا۔ اگلے دن ہارون الرشید نے دربار میں سوال کیا کہ آج سب سے زیادہ معزز شخص کون ہے، سب نے کہا کہ خلیفہ ہی سب سے معزز شخص ہے لیکن ہارون الرشید بولا کہ آج سب سے معزز شخص میرے بیٹوں کا استاد ہے جس کا جوتا اٹھانے پر میرے بیٹے فخر محسوس کرتے ہیں۔ اگر آپ حاکم ہیں تو محکوم کے ساتھ یکساں برتائو کرنا آپ کا آئینی فریضہ ہے اور اگر آپ محکوم ہیں تو حاکم کی اطاعت کرناضروری ہے بشرطیکہ وہ احکام الٰہی کے خلاف نہ ہو۔ اگر آپ سیاسی رہنماہیں تو عوام کی بھلائی اور حسن انتظام آپ کے ذمہ ہے اور اگر آپ عوام ہیں تو ووٹ کے ذریعے اچھے اور مہذب سیاسی رہنما کا انتخاب کرنا آپ کی بہت بڑی ذمہ داری اور ملی فریضہ ہے۔ یہ بہت ہی حساس مسئلہ ہے آ پ کی ذراسی غفلت،بے توجہی اور غلط رائے دہی سے مستقبل تاریک ہوسکتا ہے اور شاید اس جرم کا خمیازہ پوری قوم وملت کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔ اگرآپ ایک ذمہ دار شخص ہیں اور آپ کی ذمہ داری کا دائرہ کبھی سمٹ کر چند افراد اور آپ کے گھر کی چار دیواری تک محدود ہوجاتا ہے تو آپ چاہیں یا نہ چاہیں۔ آپ کے اوپرعائد ہوتی ہے اور آپ کو ہرحال میں یہ ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ جب تک آپ بقید حیات ہیں اس سے نجات نہیں، ہاں موت ہی آپ کو اس سے خلاصی دے سکتی ہے۔ لیکن اگر آپ نے اپنے جیتے جی اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا نہیں کیا اور تغافل و تساہل سے کام لیا تو مرنے کے بعد بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور اللہ کی عدالت سے آپ بالکل بچ نہیں سکتے۔ بڑے سے بڑاظالم اور گناہ گار دنیا کی عدالت سے بچ سکتا ہے۔ منصفوں کو خرید سکتا ہے گواہوں کو اپنا حمایتی بنا سکتا ہے، وکیلوں کو رشوت دے کر اپنے دعوے کو صحیح ٹھہرا سکتا ہے۔ یا پھر عدالت کی نگاہوں سے روپوش ہوسکتا ہے مگر وہ عدالت جس کا عادل اور منصف سمیع اور بصیر ہو ، علیم و خبیر ہو اس کی عدالت سے کون بچ سکتا ہے۔ اگر ہمارے اندر خوف الٰہی پیدا ہوجائے اور قیامت کے ہولناک منظر کا استحضار ہوجائے تو یقینا ہمارے لیے ہر ذمہ داری کو نبھانا آسان ہوجائے گا۔ ہم بخوشی اپنے حقوق کو اداکرکے ایک مثالی معاشرے کوقائم کرنے کے پابند ہوجائیں گے۔ دوسروں پر تنقید کرنے کی بجائے اور کسی پر نکتہ چینی کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں اور سب سے پہلے اپنی اصلاح ہم خود کریں۔ جن لوگو ں سے ہم ملتے جلتے ہیں ان سے اچھے اخلاق سے ملیں خواہ وہ اپنے ہوں یا پرائے ، ہم پہلے اپنی ہر طرح کی ذمہ داریاں اٹھائیں گے تو ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ایک دوسرے کو کہنے کی بجائے ہمیں خود احساس ہونا چاہیے کہ ہم کس طرح اپنے گھر، ماحول، معاشرے، شہر اور ملک کو ترقی کے قابل بنا سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے ہم اپنی ذات سے بالاتر ہو کر اجتماعی مفاد کے لیے کام کریں۔ ہر کٹھن مرحلے میں ایک ساتھ مل کر ساری مشکلات کا مقابلہ کریں تو ہی ہمارا ملک ترقی کی راہ پہ گامزن ہو گا۔ ایک دوسرے کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے سے اچھا ہے ہم خود اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور انہیں اچھی طرح پوری کرنے کی کوشش کریں۔ ہم اس ملک کے شہری ہیں ہمارا فرض ہے اس ملک کے لیے ہمیشہ بے غرض ہو کر اور خلوص دل سے سوچیں اور اس کے لیے کام کریں۔٭…٭…٭