قصہ مسلمانوں کے وفد کی لارڈ منٹو سے ملاقات کا

قصہ مسلمانوں کے وفد کی لارڈ منٹو سے ملاقات کا

اسپیشل فیچر

تحریر : پروفیسرڈاکٹر ایم اے صوفی


محمڈ ن ایجوکیشنل کانفرنس ڈھاکہ کے بعدہند کے مسلمانوں کے زعماء کی ایک سپیشل میٹنگ منعقد کی گئی تاکہ ہند کے مسلمانوں کی سیاسی تنظیم کی تشکیل ہو سکے۔ نواب وقار الملک نے صدارت فرمائی اور اُردو ز بان میں تقریر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
''وقت اور حالات نے ہمارے لیے اب ضروری کر دیا ہے کہ ہند کی مسلم قوم ایک ایسوسی ایشن کی تشکیل کے لیے اکٹھی ہو جائے، تاکہ اُن کی اپنی ایک آواز ہو اور سُنی بھی جائے۔ بلکہ اِس آرگنائزیشن کا اِتنا جلال ہو کہ سمندر پار تک مسلمانوں کے مطالبات سنُے جائیں۔‘‘
نواب آف ڈھاکہ نے کہا کہ حالات نے ہمیں اب مجبور کر دیا ہے کہ ہماری ایک تحریک یا پلیٹ فارم ہو کیونکہ اب تک انگلستان والوں کو مسلمانانِ ہند کے مسائل اور ناانصافیوں کی خبر نہیں کیونکہ اب تک انڈیا کے سیاسی مشاہیر یہ ہی کہتے چلے آرہے ہیںکہ اُن کی سیاسی جماعت (کانگریس)مسلمانوں کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے اصلی مسائل نہ تو سمجھے گئے ،نہ پیش کیے گئے اور اب اُن ہی لوگوں کی بات سُنی جاتی ہے جو سیاسی پلیٹ فارم سے اُونچی آواز میں بولتے ہیں۔ لہٰذا مسلمان مجبوراً پیچھے رہ گئے۔ اپنے تمدّنی وقار اور فطرت پر ڈٹے رہے اور موقع پرست آگے بڑھ گئے اور دوسری قومیں اپنے مقاصد کی خاطر آگے بڑھ گئیں۔
اس سے قبل یکم اکتوبر1906 ء کو 35 مضبوط ترین مسلم شرکاء کے وفد نے وائسرائے ہند لارڈ منٹو کیساتھ آغا خان کی سربراہی میں شملہ میںملاقات کی اور مسلمانانِ ہند کی جانب سے وائسرائے ہند کو خطاب کیا اور اپنے مطالبات پیش کیے ۔اِس وفد میں35ممبران تھے۔ بنگال صوبہ سے 5نمائندہ تھے۔ ایک نمائندہ آسام مشرقی بنگال سے تھا۔ اِن میں :
1۔صاحبزادہ بختیار شاہ سربراہ میسور نواب فیملی
2۔نواب بہادر سعید امیر حسین خان آف کلکتہ بنگال
3۔نصیر حسین خیال کلکتہ بنگال
4۔خان بہادر مرزا شجاعت علی کونسل جنرل مرشدآباد
5۔عبدالرحیم بار ایٹ لاء کلکتہ
6۔خان بہادر سید نواب علی چوہدری میمن
مسلمانوں کے نمائندگان نے تحریری خطاب میں ہند کے مسلمانوں کے تمام سیاسی معاملات واضح کیے۔ مسلمانوں کے سماجی حقوق مثلاًسرکار ی دفاتر میں ملازمت مسلمانوں کے لیے بند تھی۔ اِسی طرح صوبائی سطح اور مرکز میں یونیورسٹی نہیں،میونسپل کمیٹی میں مسلمانوں کے راستے بند تھے۔مسلمانوں کی نہ تو کسِی بورڈ میں نمائندگی تھی اور نہ کسی یونیورسٹی ،سینٹ میں حصہ تھانہ ہی وائسرائے کونسل میں مسلمانوںکی شمولیت تھی اور خاص کر مشرقی بنگال آسام میں تو کیفیت 1905 ء کی تقسیم بنگال کے بعد مزید خراب ہو گئی اور مسلمانوں کے ساتھ ،برتائو غیرمناسب ، متصبانہ اور تفریق والا تھا۔
خطاب کے دوران وضاحت کی گئی کہ جن ضلعوں یا صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔ اُن علاقوں کے مسلمانوں کیساتھ حکومت کابرتائو اور سلوک مناسب نہیں ہے اور کانگریس لیڈروں کارویہّ غیر منصفانہ ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو ہر لحاظ سے پیچھے رکھا جا رہا ہے۔ اِسی طرح صوبہ سندھ اور پنجاب کاحال ہے۔
مسلمانوں کے اِس اجلاس میں نواب سلیم اللہ خان اور سید نواب علی چوہدری تقسیم بنگال کے معاملے میں بضد تھے کہ اِس خطاب کی تحریر میں یہ بھی درج کیا جائے کہ مسلم آف بنگال کی بڑی خواہش ہے کہ تقسیم بنگال کو پروان چڑھایا جائے۔ لیکن پنجاب سے میاں محمد شفیع اور میاں شاہ دین اِس معاملہ کے حق میں نہ ہو سکے۔ لہٰذا خطاب میں بنگال کی تقسیم کا مسئلہ شامل نہ ہو سکا۔
نواب محسن الملک بھی ہندوئوں کی مسلمانوں کے خلاف سرگرمیوں کے حق میں نہ تھے کہ اس سے مسئلہ پیچیدہ ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وفد تیار ہواتونواب سر سلیم اللہ خان جونواب سراسد اللہ خان کے فرزند ارجمند تھے اپنے باپ کی وفات1901 ء کے بعد نواب ہوئے اور 1903 ء میں نواب بہادر بنے وہ وفد میں شامل نہ ہوئے۔ سرسلطان آغا خان سوئم نے وفد کی قیادت کی۔
جب یہ وفد شملہ میں منٹو وائسرائے ہند سے ملاِتووفد کو وائسرائے نے یقین دلایا کہ مسلمانوں کے مسائل کو ہمدردی سے سُنا جائے گا اور اُن کی جائز شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔
4 اکتوبر1906 ء کو وائسرائے ہند لارڈ منٹو نے لارڈ مورلے کو لندن میں وفد کے بارے میں آگاہ کیااور تفصیلات کے ساتھ اسلامیان ہند کے مسائل اوردیگر سیاسی حالات سے آگاہ کیا۔ مورلے نے منٹو کی تجاویز اور سفارش کوپسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور لارڈ منٹو کی تعریف کی کہ آپ نے ایک نازک مسئلہ کو نہایت ذہانت اور قابلیت سے حل کیا۔لارڈ منٹو نے تمام35 بڑی شخصیتوں کا جائزہ لیا اور حکومت برطانیہ کی کوتاہیوں اور کانگریس کی پوشیدہ گمراہیوں سے آگاہی حاصل کی ۔کیونکہ خطاب میں نہایت استدلال اور عالمگیر قانون کا حوالہ دیا گیاتھا۔یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کے مطالبات کے تاثرات نے وائسرائے کا ذہن پوری طرح سے صاف کر دیا ۔ لارڈ منٹو نے لارڈ مورلے کو واضح طور پر اطلاع کی:
''ہند کے مسلمانوں کا وفد آیا اُن کی تکالیف ، شکایات جائز ہیں۔ غور طلب ہیں ۔ اُن کا ازالہ کرنا ضروری ہے اور حکومت برطانیہ کی جانب سے اُن کو حوصلہ اور تسلّی دی گئی ہے۔‘‘
گویا نواب محسن الملک نے مسلمانانِ ہند کی پوری ترجمانی کی ۔ہند کے مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں صاف ستھری اپیل پیش کی گئی اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ اس کا جواب لارڈ منٹو نے دیا۔اِس ملاقات کا بڑا اہم نتیجہ مسلم لیگ کی تخلیق کی صورت میں برآمد ہوا۔ مسلمانوں کو حوصلہ میسّر آیا اور اُن میں خود اعتمادی کی لہرپیدا ہوئی کہ ان کی شکایات اور باتیں اچھی طرح سنی جا سکتی ہیں۔اگر ہم کسی مقام پر کھڑے ہو جائیںاور30 دسمبر 1906ء کا تاریخی دن ہمیں تمام معاملات کی یاد دلاتا ہے کہ کس طرح اِس تنظیم نے محنت کی اور جُدا ملک حاصل کیا۔ مسلم لیگ کی تشکیل میں بنگال کے مسلمانوں کا بڑا کردار رہا اور سب سے زیادہ خلوص نواب سرسلیم اللہ خان آف ڈھاکہ کی طرف سے رہا۔(جاری ہے)
(کتاب ''مسلم لیگ اورتحریک پاکستان‘‘ سے اقتباس)
اس سے قبل نواب سرسلیم اللہ خان نے آل انڈیا محمڈن کنفیڈریشن کی سکیم تیار کی اور مسلمانوں کے اہم لیڈرز اورجماعتوں کو ارسال کی۔ اس کا مقصد ایک ہی تھا کہ ہند کے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی جائے اورانڈین نیشنل کانگریس کے بڑھتے ہوئے اثر سے مسلمانوں کو بچایا جائے اور نوجوان مسلم نسل کے لیے مواقع پیدا کیے جائیں کہ جو سیاست میں حصہ لینے کی خواہش رکھتے ہیںایک سیاسی پلیٹ فارم پر ہی وہ ا پنامافی الضمیر بیان کر سکیں گے۔ اگر مسلم قوم کا کوئی سیاسی موثر پلیٹ فارم نہ ہوا تو مسلمان نوجوان کانگریس کی طرف رُخ کریں گے اور پھروہ برطانیہ کا آلہ کاربن کر رہ جائیں گے۔
لہٰذا نواب سرسلیم اللہ خان نے مسلم زعماء کو ایک تحریر روانہ کی جس میں کنفیڈریسی (Confedracy) آف مسلم ڈھاکہ کی تشکیل کا ذکر تھا کہ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے بعد دسمبر1906 ء میں مسلمانوں کے لیے ایک سیاسی پلیٹ فارم تیار ہونا چاہیئے۔ وہ تقسیم بنگال کے بڑے حامی تھے اور مشرقی بنگال کو مسلم بنگال بنانا چاہتے تھے۔ اُن کی سعی جمیلہ سے ڈھاکہ یونیورسٹی کا اعلان 1911ء دہلی دربار میں ہوا تھا۔نواب سلیم اللہ خان نے اپنے رفقاء کی مدد سے کنفیڈریسی آف مسلم ڈھاکہ کے حوالے سے اس میں کافی تبدیلیاں لائی گئیں۔ تاہم مسلم کنفیڈریسی کی رُوح اور مقصد کی تعریف کی گئی۔ نواب آف ڈھاکہ کا مسلمانوں کی اِس سیاسی جماعت کی تشکیل میں بڑ ا حصہ تھا کہ ہند کے اتنے بڑے زعماء کو ڈھاکہ میں مدعو کرنے کا اہتمام کیا تاکہ مسلمانوں کے لیے ایک بااثر سیاسی پلیٹ فارم مضبوط بنیادوں پر مہیا کیاجائے۔
اس طرح آل انڈیامسلم لیگ کی بنیاد30 دسمبر1906 ء میں سرنواب سلیم اللہ خان کی رہائش گاہ پررکھی گئی اور محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے بعد نواب وقار الملک کی صدارت میں سیاسی تنظیم کے بنانے کا فیصلہ ہوااور مسلم لیگ کی تشکیل پر اتفاق رائے ہوا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے مقاصد میں سے اوّلین مسلمانوں کے لیے مذہب میں آزادی اور مذہب کی مذہبی ترقی و تشریح تھی۔اخلاقی قدروں کی تقویت سیاسی اور مالی حالات کے پیش نظر اخلاقی قدرو ں کے استحکام پر تبدیلی کا اظہار کیا گیا۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اچھے ،مناسب تعلقات ،پرُ امن زندگی اور برطانوی حکومت کی رضامندی کو شامل کیاگیااور پہلے ریزولیشن میں صاف صاف تحریر کیا گیا کہ مسلمانوں کی ترقی اور فوائد کے لیے جماعت تشکیل دی گئی ہے۔ قرارد اد میں ظاہر کیا گیا کہ یہ مسلمانانِ ہند کی میٹنگ جو ڈھاکہ میں 30 دسمبر1906 ء کو منعقد ہوئی ہے۔ فیصلہ کیا گیا کہ ہند کے مسلمانوں کی رہنمائی اور حفاظت کے لیے ایک سیاسی ایسوسی ایشن آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے معرضِ وجود میں آگئی ہے۔جس کے فی الحال یہ مقاصد ہوں گے:
1۔اسلامیانِ ہند کی طرف سے برٹش حکومت کے لیے اچھے فرمانبرداری جذبات و واقعات ہوں گے۔ یہ اس لیے کیا گیاکہ نئی تنظیم سے حکومت برطانیہ کو غلط فہمی میسّر نہ آ جائے۔
2۔ہند کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور مسائل کی حفاظت کرنا اور حکومت برطانیہ کو آگاہ کرنا ۔
3۔ مسلمانوں کے تعلقات دوسری تحریکوں کے ساتھ استوار کرنا،یہ لیگ کے مقاصد تھے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈھاکہ میں سر سلیم اللہ خان کی رہائش گاہ پر30دسمبر1906 ء کو رکھی گئی اور دو ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی بشمول نواب وقار الملک اور نواب محسن الملک تشکیل دی گئی تاکہ لیگ کا آئین تیار کیا جائے جو آئندہ کراچی کے سیشن میں پیش کیا جائے۔ لہٰذا کمیٹی کی رپورٹس اور کارکردگی 29 دسمبر1907 ء کو لیگ کے سیشن میں پیش کی گئیں اور آل انڈیا مسلم لیگ کے عہدیداروں کا انتخاب مارچ1908 ء میں لکھنؤ میں ہوا۔
اِسی اثناء میں بنگالی بیرسٹر امیر علی نے جو لندن میں سکونت اختیار کر چکے تھے، لندن برانچ آف آل انڈیا مسلم لیگ تخلیق کی۔ اس کی افتتاحی تقریب Caxton ہال لندن ویسٹ منسٹر6 مئی1908 ء کو ہوئی ۔ جسٹس امیر علی لندن میں اس کے صدر چُنے گئے۔ وہ واحد جوشیلے ،ذہین وکیل مسلمان تھے جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافیوں کا اظہار کُھل کر کیا۔ اس برانچ نے ہند کے مسلمانوں کے لیے کافی اچھے اثرات مرتب کیے اور یہاں سے علیٰحدگی کی تحریک کی ابتداء ہوئی اور کانگریس کی لیڈر شپ میں ڈر اور خوف مسلمانوں کی ایک علیحدہ سیاسی تنظیم کے وجود میں آنے سے پیدا ہونے لگا۔ کانگریس مسلمان لیڈر بھی مسلم لیگ کے نام،وجود،عمل،ترقی سے خوف کھانے لگے۔
جسٹس امیر علی وہی تو تھے جنہوں نے سنٹر ل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کلکتہ میں بنائی تھی اور تعلیمی اعتبار سے مسلمانوں میں شعور کو اُجاگر کیا۔ حسن علی آفندی آف کراچی کی امیر علی سے علیگڑھ میں ملاقات ہوئی اور حسن علی آفندی کو اپنی ایسوسی ایشن سندھ کراچی میں بنانے کی ترغیب دی۔ چنانچہ حسن علی آفندی نے نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کراچی بنائی۔ خود صدر چُنے گئے۔ آپ نے سندھ مدرسۃ الاسلام کی بنیاد رکھی اور اِسی سندھ مدرستہ الاسلام سے قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے تعلیم حاصل کی۔ گویا نواب سرسلیم اللہ خان ، میاں عبدالطیف اور جسٹس امیر علی بنگال صوبہ کے ایسے نامورشاہین ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی تعلیم کے لیے بہت کچھ کیا ۔ سرسید احمد خان نے بھی مردانہ وار تعلیم کے میدان میں جنگ لڑی اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 10 اکتوبر1913 ء کو مسلم لیگ میں شمولیت حاصل کی اور1923 ء کو کانگریس سے علیٰحدگی اختیار کی۔ علامہ اقبال ؒ کا الہٰ آباد کا خطبہ 1930 ء کا بھی آزاد مملکت حاصل کرنے میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
کتاب ''مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان ‘‘ سے اقتباس

 

 

(بقیہ اگلے ڈائجسٹ میں یوم آزادی کے حوالے سے لگا نا ہے)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

دنیا جس تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، اسی رفتار سے انسان ایک دوسرے سے دور بھی ہوتا جا رہا ہے۔ مفادات، تعصبات اور خود غرضی نے انسانی رشتوں کو کمزور کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں نفرت، بے حسی اور ناانصافی فروغ پا رہی ہے۔ ایسے پُرآشوب دور میں انسانی یکجہتی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ انسانی یکجہتی وہ احساس ہے جو انسان کو انسان کے قریب لاتا ہے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا حوصلہ دیتا ہے اور معاشرے میں امن، برداشت اور باہمی احترام کی فضا قائم کرتا ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو بکھرتی ہوئی انسانیت کو ایک مضبوط رشتے میں پرو سکتی ہے اور دنیا کو ایک بہتر اور محفوظ مقام بنا سکتی ہے۔انسانی یکجہتی کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرے، مشکلات میں ساتھ دے اور اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی بھلائی کیلئے کام کرے۔ یہ تصور ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا میں امن، ترقی اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے جب مضبوط افراد کمزوروںکا سہارا بنیں اور خوشحال اقوام پسماندہ معاشروں کیلئے تعاون کا ہاتھ بڑھائیں۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن ہر سال 20 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے انسانوں میں باہمی ہمدردی، تعاون، مساوات اور مشترکہ ذمہ داری کے شعور کو فروغ دینا ہے۔ یہ دن دسمبر 2002ء سے منایا جا رہا ہے، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی فنڈ قائم کیا۔ یہ فنڈ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کو فنڈ دینے کیلئے فروری 2003ء میں قائم کیا گیا تھا ، جس نے غربت کے خاتمے کیلئے کام کیا۔ 22 دسمبر 2005ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی کے طور پر یکجہتی کی نشاندہی کی۔اقوام متحدہ کے اعلامیے کے مطابق یکجہتی ان بنیادی اقدار میں سے ایک ہے جو صحت مند بین الاقوامی تعلقات کیلئے ضروری ہے۔ اس طرح، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس کی یقین دہانی کرائی کہ غربت کا مقابلہ کرنے کیلئے یکجہتی کی ثقافت اور مشترکہ جذبے کو فروغ دینا ضروری ہے ۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ عالمی یوم یکجہتی ایک ایسا دن ہے جو حکومتوں کو بین الاقوامی معاہدوں کو یاد دلا نے اور ان کا احترام کرنے کی حوصلہ افزائی کراتا ہے۔ انسانی یکجہتی کا عالمی دن ایک ایسا دن ہے جو غربت کے خاتمے اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والی عوام کے درپیش مسائل کا مل کر مقابلہ کے اور ان مسائل کیخلاف اقدامات اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔آج کی دنیا جنگوں، غربت، بھوک، ماحولیاتی تبدیلی، مہاجرین کے بحران اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ ایسے حالات میں انسانی یکجہتی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ عالمی وبائیں ہوں یا قدرتی آفات، یہ حقیقت بارہا ثابت ہو چکی ہے کہ اگر قومیں مل کر کام کریں تو بڑے سے بڑا بحران بھی قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا اعلان کیا تاکہ دنیا بھر میں تعاون اور اشتراکِ عمل کو فروغ دیا جا سکے۔دنیا کی تمام اقوام و مذاہب میں سب سے پہلے یکجہتی کا درس دین اسلام نے دیا ہے ۔اسلام انسانی یکجہتی کا سب سے مضبوط درس دیتا ہے۔ قرآن و سنت میں بارہا انسانوں کے درمیان بھائی چارے، عدل، ہمدردی اور ایک دوسرے کی مدد پر زور دیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تمام انسان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے‘‘۔ یہ تعلیمات ہمیں عملی طور پر انسانی یکجہتی اپنانے کی ترغیب دیتی ہیں۔پاکستانی معاشرہ فطری طور پر ہمدردی اور ایثار کی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ قدرتی آفات، سیلاب، زلزلے یا کسی قومی سانحے کے موقع پر عوام کا ایک دوسرے کیلئے کھڑا ہونا انسانی یکجہتی کی بہترین مثال ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ جذبہ صرف ہنگامی حالات تک محدود نہ رہے بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی انصاف، برداشت اور تعاون کی صورت میں نظر آئے۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن محض ایک علامتی دن نہیں بلکہ ایک فکری پیغام ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر دنیا کو پرامن، محفوظ اور خوشحال بنانا ہے تو ہمیں ایک دوسرے کیلئے جینا سیکھنا ہوگا۔ جب تک انسان انسان کا درد نہیں سمجھے گا، ترقی کے تمام دعوے کھوکھلے رہیں گے۔ حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اختلافات کے باوجود متحد رہیں اور ایک بہتر عالمی معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے جس پر سچائی سے عمل کیا جائے تو شر و فساد ،ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری دنیاجنت کا منظر پیش کرنے لگے۔ محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے د نیا کی کسی تعلیم،کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہیں۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ''ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جائواور صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ''جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کریگا‘‘انسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے عملی تقاضےانسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ:٭...غربت اور ناانصافی کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔٭...تعلیم اور صحت کو ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا جائے۔٭...نفرت، تعصب اور انتہا پسندی کے خلاف اجتماعی شعور اجاگر کیا جائے۔٭...انسان دوستی اور خدمت خلق کو قومی و سماجی اقدار کا حصہ بنایا جائے۔  

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

٭... یکم جنوری 1948ء کو وادی ہنزہ میں پیدا ہوئے، گوجرانوالہ میں پلے بڑھے،اصل نام فخر الدین حیدر راٹھورتھا۔٭...گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے ایف اے کرنے کے بعد ٹی اینڈ ٹی میں ملازم ہوئے۔ اداکاری کے میدان میں داخل ہونے سے قبل پہلوانی بھی کی۔٭... فنی کریئر کا آغاز تھیڑ سے کیا اور بعدازاں انہوں نے ریڈیو، ٹی وی اور فلم میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ہر قسم کے کردار کو بخوبی نبھایا تاہم ہیجڑے، بوڑھے اور مجذوب شخص کے کرداروں پر انہیں دسترس تھی۔ ٭... کریئرکے پہلے ٹی وی ڈرامہ ''آپ بیتی‘‘ میں عبدالشکور کریک کا کردار نبھایا اور ''پاکستانی کوجک‘‘ کے طور پر مشہور ہوئے۔دوسرا کھیل ''لازوال‘‘ بھی بہت مقبول ہوا، جس میں ان کا ڈائیلاگ''میں کھویا کھائوںگا‘‘ زبان زدعام ہوا۔٭...ان کے شہرہ آفاق ڈرامہ ''بشیرا ان ٹربل‘‘کوپاکستان کے پہلے سپرہٹ کمرشل ڈرامہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دیگر مشہور ٹی وی ڈراموں میں ''شب دیگ‘‘، ''سونا چاندی‘‘، ''ریزہ‘‘ اور'' ایندھن‘‘ شامل تھے۔٭...فخری احمد نے فلموں میں بھی لازوال اداکاری کی۔ وہ تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں بطور کریکٹر ایکٹر اور ولن جلوہ ہوئے۔ یاد گار فلموں میں '' مس قلو پطرہ‘‘،'' مہربانی‘‘ اور ''شکرا‘‘شامل ہیں۔ ٭...اپنے کریئر میں سب سے زیادہ تھیڑ میں خدمات پیش کیں، ان کے کریڈٹ میں پانچ سو کے قریب ڈرامے ہیں۔ جن میں ''کتکتاڑیاں، سلوک سوکناں دا، تماشا ہائوس، گھر گھر بشیرا، بول نی گڈو، نہ چھیڑ ملنگا نوں، گنجے فرشتے، سسرال چلو، چاندنی راتیں، منڈا آیا سسرال، منڈا پٹواری دا، منڈا آیا ولائتوں، ٹبر ویلیاں دا، ساڈی وی سنو، کمبل نہیں چھڈدا‘‘ شامل ہیں۔٭...انہیں ان کے جونیئر اور سینئر ''تایا‘‘ کہا کرتے تھے اور یوں وہ لاہور کے ثقافتی حلقوں میں تایا فخری احمد کے نام سے مشہور ہوئے۔٭... 20دسمبر 1995ء کو تماثیل تھیڑ میں ڈرامہ ''جنم جنم کی میلی چادر‘‘ میں پرفارم کرتے ہوئے انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ عالم جاودانی کو سدھار گئے۔  

2025ء : حیران کن ریکارڈز کا سال

2025ء : حیران کن ریکارڈز کا سال

2025ء میں انسانی دلچسپی، حیرت اور تفریح سے بھرپور ایسے منفرد لمحات سامنے آئے جنہوں نے دنیا بھر میں لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ کہیں طاقت کے ناقابلِ یقین مظاہرے دیکھنے کو ملے تو کہیں دیوقامت کھانوں نے ریکارڈز کی فہرست میں جگہ بنائی۔ 2025ء کے یہ منفرد ریکارڈز اس بات کا ثبوت ہیں کہ دنیا میں حیران کرنے والی کہانیاں آج بھی جنم لے رہی ہیں۔چار ٹانگوں والے لیجنڈزاپریل میں دنیا کے سب سے لمبے کتے ''ریجی‘‘ اور سب سے چھوٹے کتے ''چیہوا ہوا پرل‘‘ کی پہلی ملاقات ہوئی۔ اگرچہ ریجی کی اونچائی کندھوں تک 3 فٹ 3 انچ ہے اور پرل کی اونچائی محض 3.59 انچ (9.14 سینٹی میٹر) ہے، مگر اپنی ملاقات کے دوران یہ دونوں جلد ہی گہرے دوست بن گئے۔اکتوبر میں ہماری ملاقات دو ریکارڈ ساز گدھوں سے ہوئی۔ ڈائنامک ڈیرک دنیا کا سب سے لمبا زندہ گدھا ہے، جس کی اونچائی 5 فٹ 5 انچ ہے، جبکہ بامبو کے پاس دنیا کے سب سے لمبے کانوں کا ریکارڈ ہے، جن کی لمبائی 1 فٹ 1 انچ (35 سینٹی میٹر) ہے۔فروری میں دنیا کا سب سے لمبابھینسا منظر عام پر آیا۔اس کی اونچائی 6 فٹ 0.8 انچ (185 سینٹی میٹر) ہے۔مشہور شخصیاتاگست میں کنٹری میوزک کی لیجنڈ ڈولی پارٹن کو گنیز ورلڈ ریکارڈز آئیکون قرار دیا گیا۔ انہوں نے موسیقی کی تاریخ کے چند سب سے یادگار گیت تخلیق کیے ہیں۔جون میں کھیلوں کے سپرسٹار اوسین بولٹ کو گنیز ورلڈ ریکارڈز آئیکون کا اعزاز دیا گیا۔ اسپرنٹر نے اپنی 100 میٹر ریکارڈز کی معلومات کا امتحان دیا، جو کتاب کے ایڈیٹر ان چیف کریگ گلینڈے کی طرف سے تیار کیے گئے ایک کوئز میں لیا گیا۔کول کڈزمئی میں چار بہت ہی خاص بچوں نے اپنی پہلی سالگرہ منائی۔لینی، کالی، لینن اور کوئن برائنٹ دنیا کے قبل از وقت پیدا ہونے والے چار جڑواں بچے ہیں جو 23 ہفتے اور 4 دن کی حمل کی مدت میں پیدا ہوئے اور ان کا وزن 577 گرام (1 پاؤنڈ 4.4 اونس) سے 647 گرام (1 پاؤنڈ 6.8 اونس) کے درمیان تھا۔فروری میں، آٹھ سالہ جمناسٹ کِنلی ہیمن، جنہیں ''Kynlee the Great‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے گنیز بک میں جگہ بنائی۔ انہوں نے 30 سیکنڈ میں سب سے زیادہ جمناسٹک بار ٹوٹوہینڈ موومنٹس (18) انجام دیے۔لیگو بلاکس پر دوڑنے کا مظاہرہستمبر میںنیوزی لینڈکی گیبریل وال نے لیگو بلاکس پر ننگے پاؤں 100 میٹر کی سب سے تیز دوڑ لگائی۔انہوں نے یہ کارنامہ محض 24.76 سیکنڈز میں مکمل کیا۔مئی میں چار ٹانگوں والے روبوٹ ڈاگ ''Whiterhino‘‘ نے 100 میٹر کی سب سے تیز دوڑ محض 16.33 سیکنڈز میں مکمل کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ایک دھماکہ خیز لمحہبرطانیہ میں اگست میں ایک انتہائی متاثر کن ریکارڈ توڑنے والی تقریب کا انعقاد کیا گیاجس میں آٹھ کولنگ ٹاورز کو ایک ساتھ دھماکہ خیز مواد کے ذریعے منہدم کیاگیا۔اس کارروائی نے سب سے زیادہ کولنگ ٹاورز کو کنٹرول شدہ دھماکوں سے بیک وقت منہدم کرنے کا ریکارڈ توڑ دیا۔طاقت کا مظاہرہوسپی جمی خراڈی(Vispy Jimmy Kharadi) نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہیویسٹ ویٹ ہولڈنگ ہرکولیس پلرز کا ریکارڈ توڑا۔ انہوں نے اگست میں اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے 261 کلوگرام وزن اٹھایا۔مارچ میں، اولیویا ونسن (آسٹریلیا) نے فٹنس کی دنیا کو حیران کر دیا جب انہوں نے 24 گھنٹوں میں سب سے زیادہ پل اپس (خواتین) لگانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ان کی کل تعداد 7,079 تھی، جو پچھلے ریکارڈ کے تقریباً دوگنا تھی۔جنوری میں، سارہ بلیک مین (امریکہ) نے ابڈومینل پلینک (خواتین) کرنے کی سب سے بڑی عمر کی خاتون بن کر تاریخ رقم کی، جب ان کی عمر 82 سال اور 229 دن تھی۔اسی طرح، مردوں کا ریکارڈ بھی دو بار ٹوٹا، مائنارڈ ولیمز (نیوزی لینڈ) نے 78 سال 135 دن کی عمر میںاور رابرٹ شوارٹز (امریکہ) نے 81 سال 16 دن کی عمر میں یہ ریکارڈ قائم کیا۔ ستمبر میں بھارت میں ایک گروپ نے تاریخ کی سب سے لمبی انسانی ہرم قائم کی، جسے پہلی بار 10ویں منزل تک پہنچایا گیا۔دلچسپ مجموعےفروری میں، یوٹیوبر کرچی (امریکہ) نے ہمیں اپنے سب سے بڑے ''Polly Pocket ‘‘ کے مجموعے کے بارے میں بتایا۔ ان کے پاس اپنے بچپن کے محبوب کھلونے کی 534 منفرد اقسام موجود ہیں۔جولائی میں ''The Legend of Zelda ‘‘ کے سپر فین کونستانٹائن ایڈمز (امریکہ) نے ہمیں اپنا ریکارڈ توڑنے والا یادگار مجموعہ دکھایا۔ان کے پاس 3,918 اشیاء موجود ہیں۔شاندار کھانے جون میں فینکس راس اور اولی پیٹر سن (برطانیہ) نے مل کر سب سے بڑا اسکاچ انڈہ بنایا۔ یہ دیوقامت ناشتہ 7.81 کلوگرام (17 پاؤنڈ 3.48 آونس) وزنی تھا اور بنیادی طور پر یہ دونوں دوست کئی ہفتوں تک کھاتے رہے۔ستمبر میں، نائجیریا کی ہلڈا باچی جو اپنی ککنگ میراتھن کی شہرت رکھتی ہیں، نے جینو کے ساتھ مل کر سب سے بڑی نائجیریائی طرز کی جولوف رائس ڈش تیار کی۔ یہ دیوقامت ڈش 8,780 کلوگرام وزنی تھی ۔حیرت انگیز انسانمارچ میں ''St David's Day 2025‘‘ کی تقریبات کے دوران برطانوی سپر ماڈل مارملیڈنے لباس پر سب سے زیادہ پھول لگانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ انہوں نے 1,862 پھول اپنے گاؤن پر چسپاں کیے۔جون میں، ویٹومیر ماریچک (کروشیا) نے ایک ایسا ریکارڈ توڑا جسے بہت سے لوگ ناقابلِ شکست سمجھتے تھے۔انہوں نے 29 منٹ 3 سیکنڈ تک سانس روک کر سب سے طویل وقت تک زیر آب سانس روکنے (مرد) کا اعزاز حاصل کیا۔ستمبر میں جان فرگوسن (کینیڈا) نے آسمان کی بلندیوں میں جا کر سب سے چھوٹے قد والے شخص کے طور پر ونگ واک کرنے (مرد) کا ریکارڈ قائم کیا، جس کا قد 4 فٹ 1.12 انچ (1.24 میٹر) تھا۔یہ سب محض ایک چھوٹی سی جھلک ہے اُن بے شمار حیرت انگیز ریکارڈز کی جو اس سال ٹوٹے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ایڈولف ہٹلر کو سزا1923ء میں ایڈولف ہٹلر اور اس کے ساتھیوں نے جرمن حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی، جسے تاریخ میں ''میونخ بغاوت‘‘ کہا جاتا ہے۔20 دسمبر 1924ء کو اس مقدمے میں اسے قید کی سزا سنائی گئی، تاہم وہ صرف تقریباً نو ماہ ہی جیل میں رہا۔ بوئنگ707کی پہلی پرواز20دسمبر1957ء کو ''بوئنگ 707‘‘ نے پہلی اڑان بھری۔''بوئنگ 707‘‘ ایک امریکی، طویل فاصلے تک سفر کرنے والا جہازہے جسے بوئنگ 387-80کے پروٹوٹائپ سے تیار کیا گیاجو پہلی مرتبہ1954ء میں اڑایا گیا تھا۔ پین امریکن ورلڈ ائیر ویز نے26اکتوبر1958ء کو باقاعدہ 707 سروس شروع کی ۔ناردرن بینک چوری20دسمبر2004ء کو شمالی آئرلینڈ کے ناردرن بینک کے ہیڈ کوارٹر سے 2 کروڑ 65 لاکھ پاؤنڈ کی چوری ہوئی۔چوروں نے بینک کے دو اہلکاروں کے اہل خانہ کو یرغمال بناکر انہیں چوری میں مدد کرنے پر مجبور کیا۔چوری کی گئی رقم کو دو گاڑیوں میں بینک سے نکالاگیا۔اسے برطانیہ کی تاریخ کی سب سے بڑی بینک ڈکیتیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ایم وی ڈونا پاز حادثہایم وی ڈونا پاز ایک جاپانی ساختہ مسافر فیری تھی جو 20 دسمبر 1987ء کو آئل ٹینکر سے ٹکرانے کے بعد ڈوب گئی۔اس جہاز کو 608 مسافروں کی گنجائش کے ساتھ 25 اپریل 1963ء کو '' ہیمیموری مارو‘‘ کے نام سے لانچ کیا گیا تھا۔ جون 1979 ء میں جہاز میں آگ لگنے کے بعد، اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور اس کا نام ڈونا پاز رکھا گیا۔امریکن ائیر لائنز حادثہامریکن ایئر لائنز کی پرواز 965 میامی، فلوریڈا کے میامی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے کالی، کولمبیا کے الفانسو بونیلا آراگون انٹرنیشنل ایئرپورٹ کیلئے شیڈول پرواز تھی۔ 20 دسمبر 1995ء کو، بوئنگ 757 بوگا، کولمبیا میں ایک پہاڑ سے ٹکرا گیا، جس میں سوار 155 مسافروں سمیت عملے کے آٹھ ارکان ہلاک ہو گئے۔یہ حادثہ امریکہ اور کولمبیا میں پیش آنے والا سب سے مہلک ایوی ایشن حادثہ تھا۔ یہ اس وقت بوئنگ 757 کے ساتھ ہونے والا سب سے مہلک حادثہ بھی تھا۔کولمبیا کے سول ایروناٹکس کے خصوصی انتظامی یونٹ نے حادثے کی تحقیقات کیں اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پرواز کے عملے کی غلطیوں کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔  

 سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

رواں ماہ کی ایک صبح جب آسٹریلوی نوجوانوں نے اپنے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور فیس بک کے نوٹیفیکیشن کھولے تو انہیں ایک عجیب سا احساس ہوا کہ شاید آن لائن زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ حقیقت یہی ہے ۔آسٹریلیا نے 16 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس رکھنے اور نئے اکاؤنٹس بنانے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ قانون جسےThe Online Safety Amendment (Social Media Minimum Age) Act 2024 کہا جاتا ہے، نومبر 2024ء میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا اور اس سال 10 دسمبرسے نافذ العمل ہو گیا۔ اس کے تحت میٹا، ٹک ٹاک، یوٹیوب، سنیپ چیٹ، ریڈیٹ، ٹویچ اور دیگر بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو حکم دیا گیاہے کہ وہ 16 سال سے کم عمر صارفین کے اکاؤنٹس بلاک کریں یا انہیں حذف کردیں ورنہ بھاری جرمانے کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہیں۔ آسٹریلوی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھم بچوں کی کمزور نفسیات، خود اعتمادی اور ذہنی صحت کو نشانہ بناتے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجائے والدین کے کمپنیوں کو اس نقصان دہ ماحول سے بچوں کو بچانے کا حکم دیا جائے۔ سوشل میڈیا سکرین ایڈکشن، تنقیدی سوچ میں کمی اور آن لائن ہراسانی جیسی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔چھوٹے بچے غلط معلومات، غیر اخلاقی مواد اور پرائیویسی خطرات کے سامنے بے بس ہوتے ہیں جبکہ والدین تکنیکی اور ثقافتی دباؤ کے سامنے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔لگتا ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا کی دنیا کے پیٹرن تبدیل کردے گا۔ آسٹریلیا کا یہ اقدام دنیا بھر میں سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک نے اس کے متوازی یا مختلف ماڈل پر غور شروع کر دیا ہے جیسا کہ یورپی پارلیمنٹ نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پابندی کی حمایت کی ہے، کیو نکہ کمپنیاں الگورتھمز کے ذریعے بچوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ نیوزی لینڈ نے ایک پارلیمانی کمیٹی رپورٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو جلد اسی موضوع پر قانون سازی کے لیے سفارشات دے گی۔ ملائیشیا 2026ء میں اسی طرح کی پابندی نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ سپین نے سوشل میڈیا کے لیے عمر کی حد 14 سے بڑھا کر 16 کرنے یا والدین کی رضا مندی کے ساتھ رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرانس اور ناروے بھی مختلف مدتوں اور حدود کے ساتھ اسی معاملے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک عالمی تحریک اب بچوں کی ڈیجیٹل حفاظت کے لیے شروع ہو چکی ہے۔ جیسے جیسے حکومتیں اس موضوع پر غور کریں گی ہر ملک کے اپنے ثقافتی اور سیاسی پیمانے سامنے آئیں گے۔تاہم سوشل میڈیا کے حوالے سے کچھ ملک نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں جیسا کہ جنوبی کوریا، جہاں سوشل میڈیا بلیک آؤٹ کی بجائے کلاس رومز میں موبائل فونز کی پابندی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تعلیم میں خلل نہ آئے اور جاپان کے ایک شہر نے سب کے لیے دن میں دو گھنٹے انٹر نٹ استعمال کی حد متعارف کرائی ہے، جسے ڈیجیٹل وقت کا متوازن استعمالکہا جارہاہے۔ ڈنمارک نے سب سے مختلف حکمت عملی اپنائی ہے ، وہاں 15 سال سے کم عمر صارفین کو سوشل میڈیا تک محدود رسائی دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، مگر والدین کو 13،14 سال کے بچوں کو اجازت دینے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ہر ملک اور سماج کے لیے ایک ہی حل نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر سختی ہے، بعض جگہوں پر لچک اور بعض میں تعلیمی انداز اپنایا جا رہا ہے۔آسٹریلیا کی پابندی نے شدید ردعمل بھی پیدا کیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں، حقوقِ اظہار کے حامیوں اور نوجوانوں نے حکومت کی اس حد تک مداخلت پر سوالات اٹھائے ہیں مثال کے طور پر،یہ آزادی اظہار کا حق چھیننے جیسا تو نہیں؟ بچے دیگر انٹرنیٹ پلیٹ فارمز یا وی پی این کے ذریعے پابندی کو توڑ سکتے ہیں؟ کیا اس سے نوجوانوں کی سماجی تعاملات اور تعلیمی صلاحیتوں کو نقصان نہیں ہوگا؟انہی نکات کو لے کر آسٹریلیا کی اعلیٰ عدالت میں اس قانون کو چیلنج بھی کیا گیا ہے جس میں 15 سال کے دو بچوں نے کہا ہے کہ ان کا آزادانہ اظہار اور سیاسی معلومات تک رسائی کا حق محدود ہوا ہے۔ آج کا ڈیجیٹل منظرنامہ وہ نہیں رہا جو پانچ سال پہلے تھا۔ سوشل میڈیا صرف تفریح نہیں بلکہ تعلیم، معلومات اور معاشرتی رابطے کا ذریعہ بھی ہے، اسی لیے کوئی بھی پابندی اپنے آپ میں اچھی بری نہیں ہے ۔آسٹریلیا نے اپنی پالیسی کے ذریعے دنیا کو ایک چیلنج دیا ہے کہ بچوں کے تحفظ اور آزادی کے درمیان توازن کہاں ہے؟یہ سوال نہ صرف قانون سازوں کو درپیش ہے بلکہ والدین، اساتذہ اور خود نوجوانوں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ کیا دنیا آسٹریلیا کے نقش قدم پر چلتی ہے؟ کیا ہم ایک نئے ڈیجیٹل سماجی معاہدے کی طرف بڑھیں گے؟وقت ہی بتائے گا کہ یہ قدم محفوظ مستقبل کی بنیاد بنتا ہے یا نئی حدود کی کنجی۔

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ایشیا میں پرندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ، ہالیجی جھیل کراچی سے 82 کلومیٹر اور ٹھٹھہ سے شمال مغرب میں 24 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہالیجی جھیل نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی ماحولیاتی اہمیت کی حامل ہے اور اپنی قدرتی خوبصورتی، میٹھے پانی کے ذخیرے اور بالخصوص آبی پرندوں کے مسکن کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔یہاں تقریباً 200 سے زائد اقسام کے پرندے آتے ہیں ۔کسی زمانے میں مہمان پرندوں کی 500 سے زائد اقسام ہوتی تھی تاہم وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پرندوں کی تعداد اور اقسام کم ہوتی چلی گئیں۔اس کی ایک بڑی وجہ جھیل کے پانی کی آلودگی بھی ہے۔ اس جھیل سے کراچی شہر کو پانی فراہم کیا جاتا تھا لیکن جب پانی کی یہ سپلائی یہاں سے بند کر کے کینجھرجھیل سے شروع ہوئی تو ہالیجی جھیل کا پانی آلودہ ہونے لگا اور آبی حیات کے لیے یہ مسکن ناقابلِ رہائش ہو گیا اور افزائش نسل کے لیے بھی مناسب نہ رہا۔ہالیجی جھیل کے قیام کا تاریخی پس منظر یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی افواج کی کثیر تعداد کراچی میں قیام پذیر ہوئی اور پانی کی ضرورت کے پیشِ نظر ہالیجی جھیل بنانے کا فیصلہ کیا گیا، یوں ایک مصنوعی جھیل وجود میں آئی جو کہ 1943ء میں مکمل ہوئی۔ جھیل کے انسپکٹر کی رہائش گاہ پر آج بھی 1943ء کی تختی لگی ہوئی ہے۔جھیل تقریباً 18 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی گہرائی مختلف مقامات پر 17 سے 30 فٹ تک ہے۔ اس جھیل کے دلدلی حصے میں مگر مچھوں کی ایک کثیر تعداد ہوا کرتی تھی جوبتدریج کم ہوتے جارہے ہیں ۔ہالیجی جھیل کو رامسر کنونشن کے تحت عالمی اہمیت کی حامل آب گاہ (Wetlands of International Importance) قرار دیا گیا، جو اس کی ماحولیاتی قدر و قیمت کا واضح ثبوت ہے۔رامسر کنونشن عالمی معاہدہ ہے جو دو فروری 1971 ء کو ایران کے شہر رامسر میں آب گاہوں کے تحفظ کے اجلاس دوران طے پایااور 76-1975ء میں مکمل طور پر نافذ کیاگیا ۔ اُس وقت پاکستان میں آٹھ رامسر آب گاہیں تھیں اور اس وقت ان کی تعداد 19 ہوگئی ہے۔ہالیجی بنیادی طور پر بارشوں اور قریبی ندی نالوں کے پانی سے وجود میں آئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جھیل ایک متوازن ماحولیاتی نظام میں تبدیل ہو گئی جہاں پانی، نباتات، مچھلیاں اور پرندے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جھیل کے اردگرد پائے جانے والے آبی پودے، سرکنڈے اور گھاس پرندوں کے لیے قدرتی پناہ گاہ اور افزائشِ نسل کا ذریعہ فراہم کرتے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہالیجی جھیل کو آبی اورمہاجر پرندوں کے لیے ایک محفوظ مسکن سمجھا جاتا ہے۔ہالیجی جھیل انڈس فلائی وے زون کے راستے میں ہونے کے باعث ہر سال سردیوں کے موسم میں سائبیریا، وسطی ایشیا اور یورپ کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا مسکن بنتی ہے ۔ ان میں فلیمنگو، پیلیکن، بطخوں کی مختلف اقسام، ہیرون، ایگریٹ اور کوٹ شامل ہوتے ہیں۔ یہ پرندے یہاں نہ صرف قیام کرتے ہیں بلکہ خوراک حاصل کرتے اور بعض اقسام افزائشِ نسل بھی کرتی ہیں۔ ہالیجی جھیل کا پرامن ماحول اور وافر خوراک ان پرندوں کے لیے ایک مثالی پناہ گاہ بناتا ہے۔رامسر کنونشن کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں آب گاہوں کا تحفظ، ان کا دانشمندانہ استعمال اور حیاتیاتی تنوع کی بقا کو یقینی بنانا ہے۔ ہالیجی جھیل اس کنونشن کے اصولوں کی عملی مثال ہے کیونکہ یہ جھیل پرندوں کے مسکن کے ساتھ ساتھ مقامی ماہی گیروں، نباتات اور آبی حیات کے لیے بھی ناگزیر اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم ہالیجی جھیل کو درپیش خطرات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی آلودگی، غیر قانونی شکار، پانی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عوامل اس جھیل کے قدرتی توازن کو متاثر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر پرندوں کے غیر قانونی شکار نے ماضی میں اس مسکن کو شدید نقصان پہنچایا۔ اگرچہ حکومت اور محکمہ جنگلی حیات نے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں لیکن مؤثر عمل درآمد اور عوامی آگاہی کی اب بھی شدید ضرورت ہے۔ہالیجی جھیل کی حفاظت دراصل پرندوں ہی نہیں بلکہ پورے ماحولیاتی نظام کی حفاظت ہے۔ یہ جھیل ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آب گاہیں قدرت کا وہ نازک تحفہ ہیں جو انسانی غفلت کی صورت میں تیزی سے تباہ ہو سکتی ہیں۔ رامسر کنونشن کے تحت ہالیجی جھیل کی حیثیت ہمیں یہ ذمہ داری سونپتی ہے کہ ہم اس قدرتی ورثے کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنائیں۔ ہالیجی جھیل پاکستان کے ماحولیاتی خزانے کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، پانی کی سطح پر تیرتے رنگ برنگے پرندے اور قدرتی خاموشی اس جھیل کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ اگر ہالیجی جھیل کا تحفظ سنجیدگی سے کیا جائے تو یہ نہ صرف پرندوں کا محفوظ مسکن بنی رہے گی بلکہ رامسر کنونشن کے مقاصد کی تکمیل میں بھی پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کرے گی۔