نئے معاہدئہ عمرانی کا سوال کیوں؟

بعض تجزیہ نگاروں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان میں نئے معاہدئہ عمرانی کی ضرورت ہے۔ یہ ایشو اس قدر اہم ہے کہ اس پر تفصیلی بحث ہونی چاہیے۔ معاہدئہ عمرانی سے مراد کیا ہے،نئے معاہدئہ عمرانی کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس کی ہیئت کیا ہوگی، اثرات ، مضمرات کیا ہوں گے... یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کا گہرائی سے جائزہ لینا چاہیے۔ ٹی وی ٹاک شوز جہاں سطحی ایشوز پر گھنٹوں پروگرام ہوتے ہیں، اس طرف توجہ نہیں دی گئی ۔ یہ درست کہ فکری موضوعات ٹی وی پر نہیں نمٹائے جا سکتے،پھربھی ناظرین کو بنیادی معلومات ایسے پروگراموں سے ضرور حاصل ہو جاتی ہے۔ ہمارے بیشتر نیوز چینل مگرطے کئے بیٹھے ہیں کہ غلطی سے بھی کوئی فکرودانش کی بات نشر نہ ہوجائے۔اچھی معیاری بحث،جس سے سوچنے سمجھنے اور غور وفکر کرنے کا ساماں پیدا ہو... وہ یہاں کا سودا نہیں ۔ اخباری کالموں میں بھی سیاسی گرما گرمی پر تبصرے غالب ہیں۔ 
معاہدئہ عمرانی کی اصطلاح سب سے پہلے فرانسیسی فلاسفر ژاک روسو نے استعمال کی، اس کی ایک کتاب کا نام سوشل کنٹریکٹ(معاہدئہ عمرانی)ہے۔ روسو نے والٹیئر کی طرح اپنے نظریات سے انقلابِ فرانس کی آبیاری کی۔ سوشل کنٹریکٹ یا معاہدئہ عمرانی کو سادہ ترین الفاظ میں سمجھا جائے تو یہ لوگوں اور ریاست کے درمیان معاہدہ ہے۔ لوگ یعنی عوام اپنے کچھ اختیارات سے دست بردار ہو کر ایک اجتماعی نظام کو قبول کرتے ہیں،اس کے نظم، قاعدوں اور ضابطوں کو تسلیم کرتے ہیں، وہ انفرادیت چھوڑ کر کل یعنی اجتماعیت کا حصہ بنتے ہیں۔ جواباً اجتماعی قوت یا سادہ الفاظ میں ریاست انہیں کچھ یقین دہانیاں کراتی ہے۔ ایک فرد یا خاندان کے لئے کسی علاقے میں رہ کر اپنی جان ومال، عزت اور دیگر سماجی ضروریات کا خیال رکھنا مشکل ہے۔ وہ اپنے معاملات ریاست کو سونپتا ہے۔ریاست اس کی جان ومال اور عزت کے تحفظ، صحت، تعلیم،اشیا ء ضروریہ کی فراہمی اورتنازعات کی صورت میں سستے اور فوری انصاف کی دستیابی کی یقین دہانی کراتی ہے۔بنیادی انسانی حقوق مثلاً آزادیٔ اظہار وغیرہ برقرار رکھنے کی ضمانت بھی دی جاتی ہے۔ مہذب یا کامیاب ریاستیں تو ماں کی طرح اپنے شہریوں کا خیال رکھنے کی ذمہ داری اٹھاتی ہیں مثلاً کام کاج اور کاروبار کے مناسب مواقع، اعلیٰ تعلیم کے لئے سکالرشپس کی صورت میں سپورٹ، ہیلتھ انشورنس کی مدد سے علاج معالجہ، دوسروں سے کمزور لوگوں جیسے معذوروں، سپیشل بچوں وغیرہ کی خصوصی دیکھ بھال۔ جرمنی جیسے ممالک میں اگر والدین نے اپنے کسی بچے کا خیال نہیں رکھا یا ان سے بار بار کوتاہی ہوئی تو بچہ ان سے لے کر ریاستی نگرانی میں چلنے والے ڈے کئیر سنٹرز میں منتقل کر دیا جاتا ہے ۔ریاست جوابی طور پر شہریوں سے کاروبار ِمملکت چلانے کے لئے ٹیکس کی ادائیگی، ملکی قوانین ، ضابطوں اور اخلاقی روایات کی پابندی کا مطالبہ کرتی ہے۔ ریاست یہ توقع رکھتی ہے کہ عوام اس کے ساتھ وفادار رہیں گے اور اپنی ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو قربان نہیں کریں گے۔ معاہدئہ عمرانی بڑا وسیع موضوع ہے، یہ چند سطروں میں بیان نہیں ہوسکتا، ہم نے اس کی نہایت سادہ تعریف ہی بیان کی ہے۔اس موضوع کو تفصیل سے سمجھنے کے خواہاں قارئین اس حوالے سے کتب خصوصاً روسو کی معاہدہ عمرانی کا مطالعہ کریں۔
جدید ریاست کو تین بنیادی اجزا میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ مقننہ یعنی پارلیمنٹ جو قانون سازی کرتی ہے۔ انتظامیہ جو امور مملکت چلاتی ہے، پارلیمانی نظام میں وزیراعظم اور صدارتی نظام میں صدر اس کا سربراہ ہے، جوا پنی کابینہ کے ذریعے ملکی معاملات چلاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں صدر سربراہ مملکت ہے، مگر یہ رسمی اور آئینی عہدہ ہی ہے۔ ریاست کا تیسرا اہم حصہ عدلیہ ہے، جو شہریوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بناتی ہے۔آئین اگرچہ پارلیمنٹ بناتی ہے،مگرآئینی امور کی تشریح کے لئے عدلیہ سے رجوع کیا جاتا ہے۔ یہ ریاست کے تین بنیادی ستون یا پلرز ہیں۔ میڈیا کو غیر رسمی طور پر ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں نجی میڈیا چند سال پہلے وجود میں آیا، مگر اس نے اپنے ایگریسو سٹائل سے معاشرے میں اپنی جگہ بنا لی ہے، اس لئے بعض اوقات میڈیا والوں کو یہ زعم ہوجاتا ہے کہ وہ ریاست کے بنیادی تین ستونوں کو بھی ہلانے کی قوت رکھتا ہے۔ریاست میں ایک او رغیررسمی ، غیر اعلانیہ قوت موجود رہتی ہے،جسے اسٹیبلشمنٹ کانام دیا جاتا ہے۔ مہذب جمہوری ریاستوںمیں اسے کسی قدر لوپروفائل میں رکھا جاتا ہے اور باقاعدہ آئینی کردار دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ امریکہ اور یورپ سے لے کر بھارت تک میں اسٹیبلشمنٹ کا اہم کردار موجود ہے۔ اسٹیبلشمنٹ میں فوج ، ٹاپ سول بیوروکریسی، سٹیٹ بینک یا امریکی ریزرو بینک کی طرح کے اکنامک ریگولیٹراور ٹاپ بزنس کلاس یا کارپوریٹ ورلڈ شامل ہوتی ہے، اب تو میڈیا بھی کسی نہ کسی انداز میں اس کا حصہ ہے۔اسٹیبلشمنٹ پالیسیوں کا تسلسل یقینی بناتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بش کی جگہ اوباما جیسا انقلابی ارادے رکھنے والا امریکی صدر بھی زیادہ مختلف خارجہ پالیسی نہیں بنا سکا۔بھارت میں بھی واجپائی کی جگہ من موہن سنگھ کے آنے سے ملکی پالیسیوں میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔ 
پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں سیاستدانوں کی کمزوریوں، نااہلی اور لڑائی جھگڑوں اور کسی حد تک غیر سیاسی قوتوں کی مہم جوئی کے باعث جمہوریت تسلسل سے اپنا سفر جاری نہیں رکھ پائی۔ جمہوری ممالک میں اسٹیبلشمنٹ بیک سیٹ پر رہ کر اپنا کام کرتی رہی، ہمارے ہاں بدقسمتی سے وہ ڈرائیونگ سیٹ پر آگئی۔کہیں پر اس وقت کے سیاسی حکمران نے ڈیڈ لاک پیدا کر دیا ، تو ایسا بھی ہوا کہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا کرتا دھرتا ٹولہ ہوس اقتدار میں اندھا ہوگیا، خواہشات ان پر غالب آگئیں۔ اسٹیبلشمنٹ یوں نہ صرف چیک اینڈ بیلنس اور پالیسیوں کے تسلسل کا کام نہ کر پائی بلکہ فوج جیسے مقدس اور اہم ترین ادارے کو بھی بدنام کیا۔ فوجی ڈکٹیٹر دس دس گیارہ گیارہ سال کے لئے حکومت کرتے رہے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں ریاست کے کلاسیکل اجزائے ترکیبی برقرار نہ رہ سکے۔
بدقسمتی سے ہمارے ریجن میں معاملات بھی بہت الجھے رہے۔افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد کئی برسوں تک اس کے خلاف افغان مزاحمتی تحریک کا چلنا، جس کی پاکستانی ریاست سرپرستی کرتی رہی، ایران میں امریکہ مخالف انقلاب، ایران عراق جنگ ، جس میں عرب بلاک ایران کے مخالف تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کا ریجن میں جارحانہ رویہ، پہلے سری لنکا،پھر بنگلہ دیش اور افغانستان میں غیرمعمولی اثرورسوخ پیداکرنے کی کوششیں،نائن الیون کے بعد کے منظرنامے نے جسے عروج پر پہنچا دیا۔یہ سب نیشنل سکیورٹی کرائسس تھے، ایسے حالات میںفطری طور پراسٹیبلشمنٹ کا کردار بڑھ جاتا ہے۔ امریکہ جیسا جمہوری ملک بھی جب، حالت جنگ میں ہو تو وہاں سٹیٹ آفس(وزارت خارجہ)کی جگہ پینٹا گون (وزارتِ دفاع یعنی فوج)کا کردار غالب آ جاتا ہے ۔ امریکہ مگر میچور جمہوریت ہے، وہ یہ کام بڑے سلیقے اور قرینے سے کرتے ہیں۔ویسے بھی وہاں وائٹ ہائوس یعنی امریکی صدر اورحکومت کی برتری ہر حال میں قائم رہتی ہے۔پاکستان جیسے ممالک میںیہ کام بھونڈے اور بھدے انداز میں سرانجام پاتا ہے اور پارلیمنٹ یامنتخب حکومت کی سبکی کاپہلو نمایاں ہوجاتا ہے۔بعض تجزیہ نگاروں نے اسی وجہ سے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یا فوج ان معاملات میں جب اس قدر دخیل ہے تو کیوںنہ انہیں آئینی طور پر یہ کردار سونپا جائے تاکہ وہ باقاعدہ طور پر اس کی ذمہ داری بھی اٹھا سکیں۔
اس تجویز پرتنقید زیادہ ہورہی ہے، مگر اس کے حامی بھی موجود ہیں۔اس پر بحث ہونی چاہیے، اگرچہ ہمارے خیال میں یہ نیا معاہدئہ عمرانی نہیں، بلکہ حکومتی اختیارات میں ردوبدل اور تمام سٹیک ہولڈرز کو شریک اقتدار کرنے کی تجویز ہے۔ میری دلچسپی نئے معاہدئہ عمرانی میں ہے،اس کی بات ہونی چاہیے ، مگر اس میں تبدیلیاں عوام کی بہتری کے لئے آنی چاہئیں۔ ہمارے ہاں کئی چیزیں صرف ٹھیک کرنے ہی نہیں بلکہ نئے سرے سے بنانے کی ضرورت ہے،اس پر مگر اگلی نشست میں بات کریں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں