اُدھر تم،اِدھر کون؟

مالی اور سیاسی مفادات کے لئے جو لو گ اپنی فوج اور شہید قائد عوام کو سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار کہتے تھے‘نریندر مودی نے ان کے منہ پر طمانچہ ماردیا۔اس لئے ایک ہفتے سے یہ بندگانِ حرص منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔
مگر اسے آپ کیا کہیں گے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم نے کر دیا۔تمہید چھوڑ دیتے ہیں۔جس روز عساکر کے سربراہ راحیل شریف نے کہا ہم بھارت کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں عین اسی روز وزیراعظم نے طرح لگائی یا گِرہ۔فرمایا: بھارت کے ساتھ پاکستان کی تمام جنگیں مارشل لاؤں کے زمانے میں برپا ہوئی ہیں۔اس جملے کا مطلب ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں سامنے کی بات ہے‘ پاک بھارت جنگوں کی ذمہ داری موجودہ حکومت نے خوداپنی ہی فوج پر ڈال دی ۔ان دنوں میں وزیراعظم کایہ بیان مودی سرکار کے لیے دوسرا میگا ریلیف ثابت ہوا۔پہلا بڑا ریلیف بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے دے دیا‘ جبکہ دوسرے ریلیف پر ہمارے وزیراعظم نے وزیر ِ خارجہ کی ٹوپی پہن کر عنایت کر دی۔
یہ1929-30ء کی بات ہے جب پہلی بار تقسیم بنگال اور بنگال کے قحط پر ہنگامے ہوئے تھے ۔تب سے پانیوں کی سرزمین مشرقی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 162آبی جزیروں کی حد بندی اور ملکیت کا تنازعہ پیدا ہوا۔خلیج بنگال میںواقع ان خوبصورت جزیروں کی اکثر آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے بھارت کئی کوششوں کے باوجود ان پر حیدر آباد، کشمیر، سِکم اور دکن کی طرح جارحانہ قبضہ نہ کر سکا۔1971ء میں بھارت کی ننگی جارحیت نے سقوط ِ ڈھاکہ کو جنم دیا۔ تب سے 2015ء تک یہ جزیرے پاکستان کی ملکیت ہی ہیں‘ کیونکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق سرحدی تنازعات میں قانونِ میعاد یعنی Law of limitation کا نظریہ لاگو نہیں ہوتا۔نکورا کارا باخ سے لے کر فلسطین تک اور کشمیر سے لے کر یو کرین تک سارے براعظموں میں یہی اصول طے شدہ ہے ۔بنگلہ دیش میں بھارت نے اپنی کٹھ پُتلی حسینہ واجد کے ذریعے اس اصول کے تنازعات کو تاراج کر ڈالا۔میری مراد اس معاہدے سے ہے جس کی رو سے بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ کے فیصلے کے بغیر مقتول بنگلہ بندھو کی بیٹی نے ایک حکم کے ذریعے وہ162 متنازع جزیرے بھارت کے حق میں سرنڈر کر دیئے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت جزائر پاکستان کی ملکیت ہیں ۔ بنگلہ دیش میں انہیں کبھی شامل ہی نہیں کیا گیا۔ یہ بھی طے شدہ سچائی ہے کہ یہ جزیرے تقسیم ہند کے وقت سے2015ء تک کبھی بھی بھارت کا حصّہ نہیں رہے۔ اس علاقے کو ہندوستان اپنا ہاٹ بارڈر کہتا آیا ہے۔
اس بین الاقوامی تنازع پر پردہ ڈالنے کے لیے ہندوستان نے برما سے لگنے والے مِنی پور‘ میزورام بارڈر سے ایک اور بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کر دی۔یہ میانمار کی سرحد ہے‘ جس کے اندر جا کر 20شر پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ بھارتی فوج کے جنرل رنبیر سنگھ نے کیا۔میانمار کی نصف صدی پُرانی فوجی آمریت نے دعویٰ مسترد کیا‘ لیکن ہندوستان نے طے شدہ منصوبے کے مطابق ایک اور ایشو منی پور آپریشن کو جواز بنا کر ظاہر کر دیا۔انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق پاکستان کے خلاف جنگی منصوبے کے دو نکات اہم ہیں۔ پہلا نکتہ سرجیکل علاقائی حملے کے گرد گھومتا ہے جبکہ دوسرے آپشن کے طور پر ایک ایسا حملہ تجویز ہوا ہے جس کے ذریعے پاکستان کو بھاری فوج داخل کر کے دو حصّوں میں کاٹ دیا جائے۔مودی سرکار اس معاملے میں اس قدر سنجیدہ ہے کہ مودی نے حالیہ دورہ بنگلہ دیش کے دوران یہ تک کہہ ڈالا کہ وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک میں رضاکار کے طور پر شریک ہوا۔بھارتی وزیراعظم کے اس کھلے اور بے باکانہ اعتراف کے بعد اُدھر تم ،اِدھر ہم والے نظریہ ء سازش کا جنازہ بھی بدبُو چھوڑ گیا،کیونکہ بھارت نے بتا دیا کہ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن ،جمہوریت یا مکتی باہنی برسرِ پیکار نہیں تھی‘ بلکہ یہ بھارت سرکار کی ننگی جارحیت تھی‘ جس میں نریندر مودی جیسے آر ایس ایس کے ہندو دہشت گرد شامل تھے۔اُدھر تم کا تنازعہ طے ہونے کے بعد آدھا سوال باقی رہ گیا اور وہ یہ کہ اُدھر بھارت ہے لیکن اِدھر کون ہے...؟ اس تناظر کو جاننے کے لیے پچھلے ہفتے مودی سرکار کے بڑوں نے جو جنگی اعلانات کیے ان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ تین بڑے اعلانات یہ ہیں ۔
پہلا: بھارت نے پاکستان کی سرزمین پر دہشتگرد ی میں ملوث ہونے کا ریاستی سطح پر اعتراف کیا۔ 
دوسرا: بھارت نے سافٹ قسم کا ''ڈیکلریشن آف وار‘‘ کیا۔ 
تیسرا: پاکستان کو الزامات کی زد میں رکھ کر 162جزیروں کی ملکیت جتانے سے روک دیا۔
یہ سارا منظر نامہ اُدھر تم والوں کا یعنی ایک دشمن ملک کا ہے لیکن اِدھر سر زمین ِ وطن پر جو کچھ ہوا اس نے بہت سارے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا۔ باقی چھوڑ کر دو کا ذکر کرنا لازمی ہے ۔کچھ وہ سیاسی لیڈر جو جنرل حمید گل جیسے ویٹرن کھلے پاکستانی کے پیچھے آرٹیکل 6کا رسہ لے کر گھومتے ہیں۔ لیکن جس دھرتی ماں نے انہیں تھڑے سے اٹھا کر اقتدار تک اور کوارٹروں اور کچھ گھروندوں سے نکال کر محلات تک پہنچایا‘اس دھرتی پر اس سے کڑا وقت اور کیا آئے گا کہ اس میں دہشتگردی کرانے اور ا س کو توڑنے کا اعلان کرنے والوںکے جواب میں وہ یوں خاموش ہیں‘ جیسے یہ دھرتی صرف کھانے پینے کی حد تک ان کی ماں ہے۔اس دھرتی ماں کو نہ گالی دیے جانے پر ان کی غیر ت جاگتی ہے‘ نہ چڑھ دوڑنے والوں کے خلاف غصہ ابھرتا ہے۔ادھر ہم والوں میں سے سب سے بڑھ کر وزیراعظم نے قوم کو مایوس کیا۔ان کے سیاسی مربی اور مہربان بلکہ ترجمان بھی حیران ہیں کہ وہ جماعت جو مخالفوں کو رسہ ڈال کر کھمبے سے لٹکانے تک جا پہنچی ہے‘ اسے بھارت کی ریاستی دہشتگردی ،ہندو وحشت گری اور مودی سرکار کے لفظی اور معنوی جملے دکھائی دیتے ہیں نہ سُنائی۔
قوم خود فیصلہ کرے کہ اوپر درج بھارت سرکار کے سارے اعلانات کا جواب وزیراعظم نے کیا دیا...؟ وہ بھی ذرا سن لیجیے ۔کئی دنوں کی تاخیر کے بعد وزیراعظم نے کہا: ''بھارت نے مجھے مایوس کیا‘‘ صدر فوج کا کمانڈر انچیف ہوتا ہے‘ وہ بھی خوش ہیں۔ وزیراعظم ملکی سکیورٹی کے اہم ترین ادارے کا سربراہ ہے۔ اُدھر والوں نے تو ساری حدیں پھلانگ ڈا لیں۔ اِدھر والوں کو کیا سونگھ گیا ہے وہ خود بتائیں...؟ مودی اُدھر تم اور حسینہ واجد‘ لیکن اِدھر کون...؟
اس دور میں یہ کیا ہے؟ اقبال پوچھتا ہے
کیوں ہر صنم خُدا ہے؟ اقبال پوچھتا ہے
تاریک راستوں میں بھٹکے ہوئے ہیں راہی
کوئی بھی رہنما ہے؟ اقبال پوچھتا ہے
غرقاب ہو رہے ہیں حالات کے سفینے
کیوں موج ناخدا ہے؟ اقبال پوچھتا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں