صرف ایک مسئلے کا حل

مسلم ممالک کے سربراہوں کو امتّ مرحوم کے گورکن نہ کہا جائے تب بھی تاریخ انہیں خوابیدہ سالار ضرور کہے گی۔ 1974ء کے بعد مسلمانوں کو کوئی ایسا موقع یاد نہیں جب او آئی سی، مؤتمرعالمِ اسلامی، عرب لیگ ، رابطہ عالمِ اسلامی یا کسی دوسرے ادارے نے کہیں مسلمانوں کا قتلِ عام رکوایا ہو یا اس کی بامعنی مزاحمت کی ہو۔ وقت گزر رہا ہے، مختلف رنگ کے پیکٹوں والی افیون کھلا کر مسلم امت کو اپنے اپنے ملک میں سُلانے کی کوشش کرنے والے لیڈر خود گہری نیند میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ورلڈ بینک نے ایک رپورٹ جاری کی جو مسلم امہ کا ہر دردمند شہری پڑھ کر حیران نہیں بلکہ پریشان ہوا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال بھارت کے اندر کن ملکوں نے''بڑے ہندسوں‘‘ میں امریکی ڈالر بھجوائے۔ پہلے عالمی بینک کا انکشاف دیکھیے۔ رپورٹ کی تفصیل کے مطابق: بھارت کو51 بلین امریکی ڈالر مختلف ملکوں سے وصول ہوئے۔ بھارت کی معیشت میں سب سے زیادہ ڈالر ڈالنے والے ممالک میں خلیجی ملکوں میں سے عمان، متحدہ عرب امارات،کویت، قطر اور سعودی عرب شامل ہیں جبکہ امریکہ مغرب سے بھی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان سے بھی گزشتہ برس بھارت کو 4.8 بلین امریکی ڈالر موصول ہوئے۔ اب یہ ایف بی آر، نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں کا فرض ہے کہ تحقیقا ت کر یں اور قوم کو بتائیں، ایک ایسا ملک جو قرضوں پر زندہ ہے اور جس کی کُل معیشت مانگے تانگے کے 15ارب امریکی ڈالر کے گِرد گھومتی ہے، وہاں سے اتنی بڑی رقم کس طرح اور کس نے بلکہ کس کی اجازت سے بھارت بھجوائی؟
آپ کے لیے یہ بھی حیران کن انکشاف ہو گا کہ بھارت کی معیشت پر سب سے زیادہ فراخدلانہ برسات سعودی عرب سے ہوئی۔ امریکہ بیچارہ دوسرے نمبر پر منہ دیکھتا رہ گیا کیونکہ اس نے محض گیارہ ارب ڈالر بھارت کی معیشت کو دیے جبکہ سعودی عرب سے بھارت کو ملنے والے ڈالر ساڑھے بارہ ارب کے قریب ہیں۔ اِسے مسلم حکمرانوں کی سیاسی بد عملی، شخصی اقتدار، خاندانی حکومتوں کے نتائج کے علاوہ بد قسمتی بھی کہا جا سکتا ہے کہ شام سے افغانستان تک ایک دو یا چار نہیں بلکہ درجنوں مسلمان ملکوںکے عوام آگ ، خون اور بارود کے مستقل سائے میں زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ اوپر جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں ، ان کی روشنی میں تین نتائج نکلتے ہیں۔
پہلا نتیجہ یہ کہ مشرقی پاکستان توڑنے والا ، دکن اور حیدر آباد کی آزاد مسلم ریاستوں پر جبراًََ قبضہ کرنے والا، ریاست جموں و کشمیر پر غاصبانہ فوجی تسلط جمانے والا بھارت مسلمانوں کے پیسوں کے بل بوتے پراسلحے اور بارود کے ڈھیرخریدتا ہے، پھراسی آتش و آہن سے مسلمانوں کے گھر، مسجدیں ، عیسائیوں کے گرجے، امرتسر کا گولڈن ٹمپل اور بابری مسجد کو جلاکر راکھ کرتاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے مسلمان ساری دنیا کی مسلم اُمّہ کا درد محسوس کرتے ہیں جس کا اظہار جلسے، جلوس، سیمیناروں ، ہڑتالوں اور مظاہروں کے ذریعے آئے دن ہوتا ہے۔ لیکن دوسری جانب پاکستان کے مسائل کے حوالے سے ہمارے اکثر برادران ِ اسلام کا روّیہ کیا ہوتا ہے؟ اس کی کہانی کچھ یوں ہے:
1979ء میں رفیق النطشہ فلسطین کے انتہائی طاقتور لیڈر تھے اور سعودی عرب میں مقیم بھی۔ اُن دنوں مَیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب میں تھا۔ میری ملاقات فلپائن کے حریت پسند لیڈر نور مشواری سے بھی رہی۔ وہ مسلم صوبے ''مینڈا نائو‘‘ کی آزادی کے جلاوطن لیڈر تھے۔ میں پاکستانی، کشمیری اور افریقی طلبہ کے ہمراہ رفیق النطشہ سے ملاقاتیں کرتا رہا۔ وہ شہید یاسر عرفات کے دست راست اور آزادیِ فلسطین کے مرکزی رہنما تھے۔ سال ڈیڑھ سال کی ملاقاتوں کے بعد ہمارے درمیان بے تکلفی ہو گئی۔ زبان کی دیوار درمیان میں کبھی نہیں رہی ۔ میں نے ایک دن اُن سے کہا: آپ کو معلوم ہے پاکستان کے عوام آپ اور آپ کے کاز سے کس قدر محبت رکھتے ہیں ؟جواب میں رفیق النطشہ نے پاکستان کے لیے بہت اچھی گفتگو کی۔ میری مزید حوصلہ افزائی ہوئی ؛ چنانچہ ا یک دن میں نے ان سے پوچھ ہی لیاکہ آپ کشمیر میںآزادی پسندوں کی جدوجہد کی حمایت کیوں نہیں کرتے؟ اس سوال کا جواب سن کر مجھے فیصلہ کرنا پڑا کہ آئندہ مجھے رفیق النطشہ سے نہیں ملنا اور پھر ان سے میرا رابطہ ختم ہو گیا۔ وہ جواب یہاں لکھنے سے بہت سوں کی دل آزاری ہو گی اس لیے میں اسے سینسر کرتا ہوں۔ اسی تسلسل میں آج بھی مسلم بلاک کے ملکوں میں کوئی ایک بھی لیڈر نہیں جومسئلہ کشمیر میں دلچسپی رکھتا ہو۔ وہ مسئلہ کشمیر جس کی وجہ سے پاکستان نے بھارت سے تین خونی جنگیں لڑیں ۔ ہمارے عوام نے 67 سال تک اپنے محترم قائداعظم کے فرمان کو سینے سے لگا رکھا ہے۔۔۔۔۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اس شہ رگ سے اکثر لہو رِستا رہتا ہے۔ اپنے برادران میں سے کسی کی طرف سے کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی مذمت پر کبھی بیان نہیں آیا۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ بہت پہلے بھی یہ تاریخ آج سے مختلف نہیں تھی۔ شاعرِ مشرق نے سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے کرنے والے استعماری ایجنٹوں کے خلاف اپنا کرب یوں بیان کیا:
کیا خوب امیرِ فیصل کو سنّوسی نے پیغام دیا
تُونام و نسب کا حجازی ہے، پر دِل سے حجازی بن نہ سکا
اقبال بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں سے موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
اس وقت خلیج کے جن ملکوں میں امریکہ، فرانس اور برطانیہ کی فوج موجود ہے وہاں سب اچھا ہے۔۔۔۔۔ نہ جمہوریت کی ضرورت ، نہ بہارِ عرب کی حِدّت، نہ سیاست کی تقسیم ، نہ ہی فرقہ وارانہ شدّت پسندی۔ اس سادہ حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو فوری سوال ذہن میں آتا ہے۔۔۔۔۔ پھر اُن ایفرو عرب ملکوں میں جنگ کس نے ایکسپورٹ کی جہاں مغرب کی فوجیں موجود نہیں؟ جواب ایک ہی ہے ، وہ یہ کہ اسلحے کی بین الاقوامی فیکٹری کے مالکان نے۔ مغرب کی فوجیں مسلمان ملکوں سے دو طرح کا''یوٹیلٹی بِل‘‘وصول کرتی ہیں۔
پہلا امن او امان کی گارنٹی کا۔ ضربِ عضب سے پہلے پاکستان کے دو بڑے شہروں میں ایک نئے جُرم نے آنکھ کھولی۔ مجھے ایک صوبے کے پولیس سربراہ نے بتایا کہ اس جُرم کی سلطنت کے بادشاہ صاحب ِ حیثیت تاجروں، پراپرٹی ڈیلروں، بزنس ٹائیکونز کو چِٹ بھیجتے تھے، آپ پچاس ہزارماہانہ پر ہمارے سکیورٹی گارڈ بھرتی کریں، ہم گارنٹی دیتے ہیں کوئی جرائم پیشہ شخص آپ کے نزدیک نہیں آئے گا۔
ہمارے جذبات درست ہیں۔ اکثر نعرے بے ضرر ہیں اور کئی با معنی بھی۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ مسلمان ملکوں کا بلاک اپنا کوئی تِھنک ٹینک ہی بنادے جہاں راج نیتی، بین الاقوامی امور، تجارت اورگورننس کو سمجھنے والے سر جوڑ کر بیٹھیں اور صرف ایک مسئلے کا حل تلاش کر لیں، وہ یہ کہ مسلمان ملکوں کے وسائل ، ڈالر ، دولت اور طاقت غریب مسلمانوں کی غربت کے خاتمے پر خرچ ہو گی۔ اس کا ایک نتیجہ فوراً نکل آئے گا۔۔۔۔۔ عالمی طاقتیں مسلم ملکوں کو عالمی بلاک تسلیم کر لیں گی ۔ مسلمانوں کے وسائل مسلمانوں کے خلاف استعمال ہونا بند ہو جائیں گے۔
آپ اتفاق کریں گے ، ایسا ہو سکتا ہے، شرط صرف ایک ہے۔۔۔۔۔ ہم سب ایک دوسرے کو اپنے ایجنڈوں اور ذاتی اقتدار کے لیے استعمال کرنے کے بجائے نام و نسب سے نہیں دل سے مسلم امت بن جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں