پانی

100دن پہلے مجھے پانی کے سہ رُخی بحران کے ثبوت دکھائے گئے۔اس کے ٹھیک دو دن بعد میں نے اختلافی نوٹ میں پانچوں حکومتوں اور وزارتِ نہ بجلی نہ پانی سمیت سب کو پانی کے بحران کی شدت سے آگاہ کرنے کے لیے گھنٹی بجا دی۔مگر جمہوریت میگا پراجیکٹس کے شانے پر سر رکھ کر سوئی رہی۔جو جاگ رہے تھے ان کی نظریں دو عدد ''ارجنٹ‘‘ کاموں سے آگے نہ دیکھ سکیں۔پہلا کام تھا ٹھیکہ کنٹرول ،جبکہ دوسرا میڈیا کنٹرول۔آج پانی کا بحران سیلابِ بَلا بن کر ہمارے کھیت ،کھلیان ،دروازے اور دالان سے ٹکرا رہا ہے۔ چار جمہوری وزرائے اعلیٰ اور پانچویں منتخب وزیراعظم سمیت سیاسی اشرافیہ ( جو ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو دھاندلی زدہ کہتے ہیں ) کا وژن کیا ہے ۔یہ سب کے سامنے ہے۔ آئیں اس کھلی کتاب سے کچھ جھلکیاں دیکھیں۔
چاہیے تو یہ تھا کہ سب سے پہلے پانی بحران کو سمجھنے کے لیے آئینی ادارے مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس بلاتے۔ اس اجلاس میں پانی کے تینوں استعمال زیرِ بحث لائے جاتے۔
اولاً، پینے اور گھریلو استعمال کا صحت مند،صاف شفاف پانی۔
دوسرے،آبپاشی ،باغبانی وغیرہ جیسے زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والا پانی۔
تیسرے ،پانی کے وہ بڑے ذخائر جن کو بجلی کی پیداوار سمیت پانی کا ''سٹریٹیجک ذخیرہ‘‘ یا پانی کا آبی بینک کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔
دریاؤں ،ندی،نالوں اور پانی کے قدرتی ذخائر سے مالا مال یہ پاک سر زمین آج پانی کے بحران سے دو چار ہے۔کسان رو رہے ہیں ۔لیکن حکمران ان کے آنسو پونچھنے کے بجائے چوکوں اور چوراہوں میں ان پر لاٹھیاں برسا تے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے سینکڑوں کسانوں کو جگہ جگہ گرفتار کیا گیا۔ ہزاروں کے خلاف من گھڑت اور جھوٹے مقدے قائم ہوئے ۔لاٹھی،گولی کی سرکار حرکت میں آئی جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ پاکستان کی قیادت ،سیادت اور بیوروکریسی کا عمومی رویہ کسان دشمن ہے۔
بات ہو رہی تھی پانی بحران کے حوالے سے سیاسی قیادت کے وژن کی۔اس کے مزید ثبوت ملاحظہ فرمالیں۔
پہلا ثبوت وادی مہران سے ہے ۔جہاں سمندر کے کنارے کراچی پیاس سے بِلبلا اٹھا ہے۔کراچی سے ووٹوں کے طلبگار سیاسی قائدین جوڑ توڑ میںمصروف ہیں۔جس کا نتیجہ زور دار نعرے بازی سے شروع ہو کر جیب گرم کرنے والی مفاہمت تک طویل ہے۔کراچی کی تاریخ میں پہلی دفعہ پانی کی راشن بندی ہوئی۔اچھے وقتوں میں آٹا ،چینی کی راشننگ ہوتی تھی ۔جب سے نئی جمہوریت آئی ہے پہلے گیس کی راشننگ ہوئی ۔جس کے نتیجے میں پنجاب کے سی این جی سٹیشنز آٹھ مہینے سے بند پڑے ہیں۔ ہزاروں گھرانے اور لاکھوں کارکن بے روزگاری کی سزا بھگت رہے ہیں۔ رکشہ، ٹیکسی ،سوزوکی،ویگن اور دوسری عوامی ٹرانسپورٹ گیس کی قلت کے باعث بند ہونے کے قریب ہیں۔یہ عجیب راشننگ کا نظام ہے جہاں آدھے ملک کے چولہے جل رہے ہیں اور آدھے ملک میں چولہے یخ ٹھنڈے ہیں۔جلانے کی لکڑی سُپر پٹرول سے بھی مہنگی ہو چکی ہے ۔مٹی کا تیل اور ڈیزل ایک ریٹ پر ملتے ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے حکمران عوام سے کہنا چاہتے ہوں ''اور جلاؤ چولہے‘‘۔
کراچی میں جو لوگ پینے کا پانی عوام کو نہیں دے سکتے وہ دن میں تین دفعہ صبح ،دوپہر ،شام ٹی وی چینلز پر اچھی حکمرانی کے بھاشن دیتے ہیں۔کچھ سال پہلے جو لوگ تھر میں پانی کی قِلت پر آنسو بہاتے تھے اب کراچی کے حکمرانوں نے آنسو بہانے والوں کا مسئلہ بھی حل کر دیا ۔پینے کا پانی نہیں ہو گا تو آنسو آئیں گے کہاں سے...؟ یہ تو مہران کے لیڈروں کے آبی وژن کا تذکرہ تھا ۔اب آئیے پنجابی آبی وژن کی طرف۔
پنجاب کے مخدومِ اعظم المعروف خادمِ اعلیٰ نے پانی کی قلت دور کرنے کا ''کامیاب‘‘ طریقہ ڈھونڈ نکالا۔اطلاعات کے مطابق درباریوں کو حکم ملا ،پانی سے بھرپور اے ٹی ایم مشینیں لگا دو۔ جہاں ساری دنیا کی اے ٹی ایم مشینوں سے نوٹ گریں گے وہاں پنجاب کے آٹو ٹلرِچھم چھم پانی برسات ہو گی۔کئی ہزار سالوں سے پنجاب صرف پانچ دریاؤں کی سرزمین ہی نہیں بلکہ اسے ایشیا کی ''فوڈ باسکٹ‘‘ سمجھا گیا۔ آج یہ فوڈ باسکٹ خالی ہو رہی ہے 1947ء کے بعد کسی حکمران نے اپنے سب سے بڑے صوبے پر بھارتی آلو،ٹماٹر ،دھنیے اور پھلوں کی یلغار نہ کروائی۔ مگر حالیہ جمہوریت کی وجہ سے ہونے والی یلغارنے دو سال میںایشیا کی تین فوڈ باسکٹس کا پاکستانی برانڈ خالی کروا دیا۔
آبی بحران کاا گلا پہلو اور بھی ظالمانہ ہے ۔کچھ حلقے نہیں چاہتے ہماری فوڈ باسکٹ بھری رہے ۔میں نہیں کہتا منصوبہ بندی سے ایسا ہوا۔چلیے اسے اپنوں کی معصومیت ہی کہہ لیتے ہیں۔ مگر بھارت کا ایجنڈا بالکل یہی ہے۔لیکن ایک عجیب بات ذہن میں کھٹکتی ہے ۔آپ بھی اس پرضرور سوچیئے ۔اور وہ یہ کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کالا باغ ڈیم ان کی لاشوں پر بنے گا ۔ان لوگوں نے کشن گنگا سے لے کر ریتل ڈیم تک کبھی کسی بھارتی ڈیم کے خلاف شور نہیں مچایا۔ حالانکہ بھارت نے ستلج، بیاس، چناب، راوی،جہلم پر کئی ناجائز ڈیم بنا لیے۔سندھ طاس معاہدہ سمیت عالمی اداروں کی پروا نہ کی۔جس پر جو زبانیں گنگ ہیں وہ کالا باغ پر بجلی کی طرح کڑکتی ہیںآخر کیوں...؟ اگلا المیہ بھی سن لیجیے۔پنجاب کے لیڈر بھارت کی جانب سے پانی کی جارحیت اور کالا باغ ڈیم پر ہوائی اعتراضات کے معاملے میں سب سے بڑے گھنے ثابت ہوئے۔اس کی وجہ شاید فطری ہے اور سیاسی نظریہ ضرورت سے جڑی ہوئی بھی۔آپ ایک سادہ سی مثال سے حکمرانوں کے اس رویہ کو با آسانی سمجھ جائیں گے۔ مثلاً بکری کا بچہ کتنا پیارا ہوتا ہے۔ اس بات کا اسے پتہ ہو گا جو بکریاں پالتا اور ان کے ریوڑ چراتا ہے۔ شہری بابو کے لیے بکری کے بچے کا چمڑا‘ اچھے اور نرم بوٹ بنانے کے لیے زیادہ عمدہ ہوتا ہے۔جبکہ چھلانگیں مارتے، اچھلتے کودتے میمنے کے ریشمی کباب مزید لذیذ ہوتے ہیں۔یہ مت سمجھیں میں بھول گیا ،سِری،پائے ،مغز اور کھد کا تذکرہ میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا ۔ورنہ مثال سیاسی ہو جاتی۔
ساری دنیا کے ماہرین ایک نقطے پر متفق ہیں ۔نقطہ یہ ہے کہ اگلی عالمی جنگ پانی پر ہو گی۔یہ بھی کہ اگلی ساری جنگوں کی وجوہ پانی ہو گی۔حکمران پالیسی سازی سے ڈرنا چھوڑ دیں،اور فیصلہ سازی کے وقت پاکستان کو اپنے محل کا پچھواڑا نہ سمجھیں۔ہم پہلے ہی پانی اور آبی وسائل کے حوالے سے 67سال نیند میں گزار چکے۔خوابِ غفلت کی اب مزید گنجائش باقی نہیںرہی۔ ہم بحیثیت قوم آج وہاں کھڑے ہیں جہاں سے ہم ریاست اور سیاست میں سے ایک چیز بچا سکتے ہیں۔
گروہی، فروعی، مسلکی، مفاداتی، کاروباری اور ذاتی سیاست نے پہلے ہی ملک کو ریلیف سے محروم کر رکھا ہے۔فیصلے کی گھڑی میں فیصلہ دو طاقتیں کرتی ہیں۔پہلی طاقت قوم اور دوسری تاریخ۔جو قوم فیصلہ کرنے کے قابل ہو وہ فیصلہ تاریخ پر چھوڑنے کا رِسک نہیں لیتی۔کون نہیں جانتا تاریخ کے فیصلے کھنڈروں پر لکھے جاتے ہیں۔چند دن پہلے گفتگو میں برادرم حسن نثار نے کہا ملکی اشرافیہ قبروں پر دسترخواں بچھا کر بوٹیاں کھانے سے باز نہیںآئے گی۔ آخر کب تک؟
دریا کے پانیوں کی بغاوت ہے دوستو
سیلاب تو نہیں ہے قیامت ہے دوستو
پانی بپھر کے جنگ کا طوفان ہو گیا
سیلِ رواں کے روپ میں آفت ہے دوستو
دوچار روز میں جو مصیبت گزر گئی
حالاتِ حاضرہ کی بدولت ہے دوستو
آپس میں لڑ رہے ہیں حریفانِ بادہ نوش
اس کشمکش کا نام سیاست ہے دوستو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں