ثبوت یا بُھوت

ثبوت وہ شے ہے جو سامنے دکھائی دے ۔ آپ اُسے چُھو لیں، محسوس کر سکیں یا پڑھ لیں ۔ پھر واقعاتی شہادت، مکینیکل گواہی، زبانی بیان اور فرانزک سائنس کے طریقوں سے اسے عدالت میں پیش بھی کیا جا سکے۔ ثبوت حاضر اور بُھوت غائب۔ بُھوت نہ دکھائی دیتا ہے نہ پکڑائی ؛ نہ اس کا وجوود ثابت کیا جاسکتا ہے نہ اس کو چُھوا جا سکتا ہے بلکہ اس کا حُلیہ فلموں اور کارٹونوں تک ہی محدود رہتا ہے۔کسی کو معلوم نہیں بُھوت کیسا ہوتا ہے؟ جِنّ سے ملتا جلتا یا چڑُیل کا ہم شکل، مگر یہ دونوں کس نے دیکھے ہیں؟دھاندلی کمیشن کے پاس سرکار کا مقدمہ ثبوت اور بُھوت کے درمیان بِلّی اورچوہے کا کھیل بن کے رہ گیا ہے۔
الیکشن 2013ء میں دھاندلی ہوئی ، دھاندلہ ہوا یا انتخاب کی نیک پروین پر مخالفت کے مشٹنڈے ویسے ہی ٹوٹ پڑے ، اس کا فیصلہ کالم کی لوچ ، ٹاک شوز پر گالم گلوچ اور اپنی اپنی سوچ سے ہو گا‘ نہ ہی بُھوت کے پیچھے بھاگنے سے۔ اب اس کا فیصلہ ثبوت کریں گے اور وہ بھی جوڈیشل کمیشن کے عدالتی فورم پر۔
دھاندلی منظم ہوتی ہے یا معصوم ؟یہ ان کا بکھیڑا ہے جو سرکاری موقف کو نیم سرکاری واسکٹ پہنا کر اسے معصومیت کا گیٹ اَپ دیتے ہیں۔ منظم دھاندلی کی حکومتی تعریف مان لی جائے تو پھر کوئی دھاندلی ثابت نہیں ہو سکتی ، لیکن اس کے برعکس جو چیز یںدیوا ر پر لکھی ہیں انہیں کوئی نظر انداز نہیں کر سکے گا۔ مثال کے طور پر انتخابی عمل آئین کی زبان میں صرف الیکشن کمیشن کی خصوصی ذمہ داری ہے۔ ان ذمہ داریوں کی تفصیل آئین کے آرٹیکل 230 میںموجود ہے۔دستورِ پاکستان مجریہ 1973ء کے پارٹ نمبر 8 میں شامل آرٹیکل 0 22 وفاق اور صوبوں کے تمام اداروں کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ انتخابات سے متعلقہ درج ذیل کردار ادا کر یں:
Executive authorities to assist commission, etc. It shall be the duty, of all executive authorities in the federation and in the provinces to assist the commissioner and election Commission in the discharge of his or their functions.
ترجمہ: '' وفاق اور صوبوں میں واقع تمام ایگزیکٹیو اتھارٹیز کی یہ لازمی ڈیوٹی ہو گی کہ وہ کمشنر اور الیکشن کمیشن کو فرائض کی انجام دہی میں معاونت فراہم کریں‘‘۔ آئین کے ان واضح احکامات سے ایک بات صاف ظاہر ہو جاتی ہے، وہ یہ کہ عدلیہ کو الیکشن کے عمل میں نہ ''معاونت ‘‘کا کوئی کردار دیا گیا نہ ہی آئین اسے انتخابی معاملات میں ''مداخلت‘‘ کا اختیار دیتا ہے۔ منظم دھاندلی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ ایک سیاسی جج جس کا ایک سیاسی کزن دھاندلی کے بڑے الزام علیہ فریق کا وزیرتھا ، پورے ملک کے طوفانی دورے کرے ۔ ریٹرننگ افسران‘ جو صوبوں کے ماتحت ہیں انہیں صوبائی عدلیہ بشمول صوبے کے چیف جسٹس صاحبا ن کو بائی پاس کر کے براہ راست ہدایات جاری کرتا پھرے۔ یہ وہی جج ہے جس نے بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان جوڈیشل پالیسی بنا کر یہ کہا تھا : ''آئندہ عدلیہ کے جج انتخابی ڈیوٹیاں ادا نہیں کریں گے‘‘۔ وہ یہیں نہیں رُکا بلکہ یہ پالیسی بھی دے دی کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ جیسے اہم اداروں میں جہاں آئین سازی ،قانون سازی اور پالیسی سازی ہوتی ہے‘ میں ڈیپوٹیشن پر موجود ججوں کو واپس بلایا جائے۔ وہ جج واپس بُلا لیے گئے مگر پیارے آر اوز کو خصوصی رعایت مل گئی۔
دوسروں کو اعلی اُصولوں ،ارفع روایات ،جمہوریت ، قانون کی پاسداری کا درس دینے والی وہ حکومت جو آج دھاندلی کے الزام کے کٹہرے میں پریشان کھڑی ہے، اس نے الیکشن کمیشن کو انتخابی نتائج کی گنتی کرنے دی نہ الیکشن کا نتیجہ تیار کرنے کی مہلت اور نہ ہی انتخابی نتیجہ مرتب کرنے دیا بلکہ ان نتائج کا اعلان بھی نہیں کرنے دیا۔ ابھی الیکشن غیر سرکاری طور پر بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ مستقبل کے وزیراعظم، خادم اور کابینہ گھر کی بالکنی پر چڑھ دوڑے۔ ان کا مطالبہ بڑا دلچسپ تھا۔۔۔۔۔ یہی منظم دھاندلی کی سب سے بڑی ،کُھلی اور پبلک '' کڑی‘‘ ہے۔ ن لیگ کے سربراہ نے اپنے آپ کو وزیراعظم ڈکلیئر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ کامیاب حکومت چلانے کے لیے مجھے بھاری مینڈیٹ دو۔ اس مطالبے سے دو سوال پیدا ہوئے۔
پہلا یہ کہ پولنگ کا وقت 4 اور 5 بجے( بشمول اضافی وقت کے) ختم ہو گیا ۔ ووٹر اپنے گھروں کو جا چکے تھے ۔ ڈبے بند اور گنتی شروع ہو گئی تھی ، پھر محترم لیڈر صاحب نے کس سے کہا بھاری مینڈیٹ دینا؟ دوسرا یہ کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن 2013ء گزر جانے کے دو سال بعد بھی ن لیگ یا نواز شریف کو اس بات کا نوٹس تک جاری نہیں کیا کہ آپ الیکشن نتائج کی تکمیل سے پہلے چیف الیکشن کمشنر کی ڈیوٹی ادا کرنے والے کون ہوتے ہیں ؟
منظم دھاندلی کا اگلا ثبوت براہ راست یعنی زبانی شہادت (Oral evidence) سے سامنے آیا۔ وہ یہ کہ 30 فیصد بیلٹ پیپرز یا الیکشن کی پرچیاں فالتو چھاپی گئی تھیں۔ وہ پرچیاں کہاں چلی گئیں؟ اب سامنے آگیا ہے کہ پرچیاں سرکار کے بڑے لیڈروں سمیت 25/30حلقوں تک پہنچائی گئیں۔ اسے مان لیتے ہیں کہ پیپلز پارٹی مفاہمتی مقدمہ لڑ رہی ہے اور وہ بھی بڑے دوستانہ انداز میں ۔ اس کے باوجود جن تھیلوں سے پکوڑے لپیٹنے والے ردّی کاغذ برآمد ہوئے ، ان کے بارے میں کیا فرماتے ہیں علمائے سیاست؟ منظم دھاندلی کے بغیر کون اکیلا مائی کا لال جا کر تھیلے اُٹھائے گا؟ تھیلوں کی سیل توڑے گا ، پول شدہ ووٹ کی ڈکیتی مارے گا، پھر اردو بازار کے ماہرین سے خریدی گئی ردّی سے الیکشن مٹیریل کے تھیلے بھرے گا؟
کیا یہ منظم دھاندلی نہیں کہ سارے ریٹرننگ اور پریزائڈنگ افسران فارم نمبر 14اور 15 لکھنا اور پُر کرنا ہی بھول گئے ؟ اس کی جگہ من مرضی کی پرچیوں پر قوم کے مینڈیٹ کاحساب کتاب لکھ ڈالا۔ اجتماعی خود کشی تو مشہور ہے لیکن صرف جاپان میں۔ اس بڑے پیمانے پر'' اجتماعی غلطی‘‘ کبھی جنگ کی افرا تفری کے دوران بھی نہیں ہوتی۔ الیکشن کے اختتام پر ایسی غلطی چہ معنی دارد ؟جن کے ووٹ چوری ہوئے وہ غالباً اسی کو دھاندلہ کہہ رہے ہیں یعنی دھاندلی کا پُھوپھا۔
اگلے روز کسی نے میرے ٹویٹر پر دلچسپ بات کہی، آپ بھی سنیے: '' میں نے تبدیلی کو ووٹ دیا ، آراو نے میرا ووٹ ہی تبدیل کر دیا‘‘۔ انصاف کے بارے میں کہتے ہیں اس میں تاخیر کا مطلب ہے، ناانصافی یا انصاف سے انکار۔ قانون میں لکھا ہے، انتخابی جھگڑوں کا فیصلہ 120 دن میں ہو گا، لیکن دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، 120 دن میں کئی سو دن کا اضافہ ہوتا رہا۔ دھاندلی سے جیتنے والے خوش ہیں، ہم نے دو سال جھونگے میںلگا لیے۔ ہارنے والے زخمی ہوئے، جیل گئے، قتل بھی ہوئے مگر دھاندلی اس قدر منظم ہے جیسے بھوت کا سایہ۔ جس نظام انصاف میں ریلیف صرف طاقتور کی جیب کی گھڑی بن جائے لوگ اس پر اعتبار کریں، افسوس یا احتجاج؟ لوگوں کا فیصلہ آپ لوگ کریں، میںجالب سے اتفاق کرتا ہوں:
یہ منصف بھی تو قیدی ہیں ہمیں انصاف کیا دیں گے
لکھا ہے ان کے چہروں پرجو ہم کو فیصلہ دیں گے
اٹھائیں لاکھ دیواریں طلوع مہر تو ہو گا
یہ شب کے پاسباں کب تک نہ ہم کو راستہ دیں گے
ہمیں تو شوق ہے اہلِ جنوں کے ساتھ چلنے کا
نہیں پروا ہمیں یہ اہلِ دانش کیا سزا دیں گے
ہمارے ذہن میں آزاد مستقبل کا نقشہ ہے
زمیں کے ذرّے ذرّے کا مقدر جگمگا دیں گے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں