اہلیت بذریعہ نااہلی

فنِ حکمرانی کا بنیادی تقاضا توازن ہے ۔ انسانی سوچ ، رویّے ، برتائو، فیصلہ سازی سے لے کر کردار سازی اور معاشرہ سازی تک توازن ہمیشہ سے بنیادی نکتہ چلا آتا ہے۔
میں کل سے الف لیلیٰ کی داستان کے اس شہزادے کو یاد کر رہا ہوں جو ہر نیا واقعہ دیکھ کر پہلے روتا تھا پھر ہنس دیتا تھا۔ ہزار داستان والا شہزادہ آپ کو یاد آئے یا نہ آئے لیکن یہ اختیار آپ ہی کے ہاتھ میں ہے کہ آپ اس واقعہ پر پہلے ہنس دیں یا پہلے رو دیں۔ پھر میں آپ کو پوٹھوہار میں لے آئوں گا جہاں پرانے وقتوں میں چور پکڑنے کے لیے ''پگڑ وال نیاں‘‘ اور کھوجی بلائے جاتے تھے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب نے وکیلِ صفائی سے سوال پوچھا: کیا چور کو پارٹی کا سربراہ بنایا جا سکتا ہے ؟ فاضل کونسل کا جواب بعد میں، پہلے گئے وقتوں کے پگڑ وال نیاں کی کارروائی دیکھنے کے لیے آئیے پوٹھوہار چلیں‘ جہاں ایک غریب آدمی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ علاقے کے سرپنچ نے پگڑ وال نیاں کرانے کے لیے نمبردار ، چوکیدار اور ذیلدار کو ابرق لگا شملہ پہنایا اور ساتھ تین چار مشتبہ بیٹھا دیئے۔ سب کے کپڑے اور دستاریں ایک جیسی بنائی گئیں۔ گلی کے دوسرے سرے میں کالی پگڑی سے سر اور منہ ڈھانپے شامیں اور کوکے لگا ہوا ٹیڑھا ''کھونڈا‘‘ دونوں ہاتھوں میں پکڑے ہوئے ایک صحت مند نوجوان برآمد ہوا ۔ اس نے پگڑ والوں کو مخاطب کیا اور زوردار للکارا مار کر کہا ''اوے چورا میں نے تمہیں پہچان لیا ہے، پگ اتار کر نیچے رکھو ، اور ہاتھ ہوا میں بلند کر دو ورنہ اس کھونڈے سے تیرے مغز کا دہی بنا دوں گا"۔ یہ کہہ کر نوجوان نے پگڑ وال نیاں یا جرگے کی طرف تیزی سے دوڑنا شروع کر دیا۔ ابھی وہ مشکل سے چند قدم ہی دوڑا تھا کہ ایک آدمی نے دستار اتار کر دور پھینکی ، ہاتھ ہوا میں بلند کیے اور کہنے لگا چوری کی سزا موت تھوڑی ہی ہے ۔ اب کیا میری جان لو گے ۔ یوں پگڑ وال نیاں میں چور پکڑا گیا۔ 
عدالت عظمیٰ میں اٹھائے گئے سوال کا جواب نون لیگ کی بے تاج بادشاہ خاتون کے ٹویٹر اکائونٹ سے کل سامنے آیا ۔ محترمہ نے فرمایا: یہ ریمارکس دیکھ لو ، یہ ریمارکس ہمارے خلاف اور بغض پر مبنی ہیں۔ جن سے سماجی رابطے کی دنیا میں ایک لطیف اور مزے دار سوال پیدا ہوا ۔ اور وہ یہ کہ عدالت میں ایک اصولِ قانون کے بارے میں پوچھا گیا تھا‘ کوئی چور جو چوری میں پکڑا جائے اور کورٹ آف لاء اسے خائن کہہ کر نااہل ڈیکلیئر کر دے تو کیا وہ سیاسی پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے۔ لیکن عدالتی ریمارکس کے ان لفظوں میں کسی کو اپنا نام شامل کیسے نظر آ گیا۔ اس سوال نے بھی سوالات کا پنڈورہ باکس کھول کر رکھ دیا‘ جن میں سے کچھ ممکنہ سوال یہ بھی ہیں۔ 
اوّلاً، جو شخص کسی عہدے کے لیے خود ہی اہل نہیں۔ کیا وہ کسی ایسے ایوان کے ارکان کو ٹکٹ جاری کر سکتا ہے، جس میں داخلے کی پہلی شرط ایسا حلفیہ بیان ہو جس میں لکھا ہے میں آئین کے آرٹیکل 62,63 کی رو سے نااہل نہیں ہوں اور نہ ہی میں جھوٹا یا بے ایمان شخص ہوں۔
سوالِ ثانی یہ ہے کہ اگر ایسی آئینی نااہلی کی زد میں کسی سیاسی پارٹی کا سربراہ آ جائے جو خود الیکشن لڑنے کے لیے آئینی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اس کے جاری کردہ ایوانِِ نمائندگان کے ٹکٹ آئینی طور پر مؤثر ہوں گے یا کالعدم۔ 
یہاں یہ بات مدِ نظر رہے پانامہ کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5 رکنی بینچ سے نااہلی کی سزا پانے کے بعد نااہل شریف نے نواز لیگ کے سینیٹ امیدواروں کو چاروں صوبوں، فاٹا اور آئی سی ٹی میں اپنی ذات کی نااہلی کے باوجود اہلیت کے پارٹی ٹکٹ جاری کر رکھے ہیں۔
محض علمی تناظر کے لیے یہ جان لیجئے کہ ''جنرل کلازز ایکٹ‘‘ کے قانون کی رو سے کسی پرائیویٹ آدمی کے اقدامات کو مؤثر بہ ماضی کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ تیسرا سوال یہ ہے ، کیا 20 کروڑ پاکستانیوں کو 22 کروڑ عوام کہہ کر ان کی خدمت کا سب سے بڑا مدعی ملکی قانون کے علاوہ کسی اخلاقی ، پارلیمانی، جمہوری اور روایتی شرافت کے ضابطے کا بھی پابند ہے یا مُنکر۔ ان سوالوں کا سینیٹ الیکشن کے مستقبل پر کیا اثر ہو گا یا کچھ نہیں ہو گا۔ اس سوال کا جواب سپریم کورٹ کے روبرو زیر تجویز مقدمے کے فیصلے کے بعد ہی سامنے آئے گا۔ اسی حوالے سے ایک اور اہم سوال بھی الیکشن کمیشن سمیت متعلقہ آئینی اداروں کے سامنے منہ کھولے کھڑا ہے۔ یہی کہ جس طریقے سے قانون ، ضمیر ، انصاف ووٹوں کی خرید و فروخت کے نیلام عام میں شریک ہو رہے ہیں‘ اسے فیئر ، فری، ٹرانسپیرنٹ ، آئین کے مطابق ، قانون کے ماتحت یا جمہوریت اور انتخابی اخلاقیات کے کسی بھی ضابطے کے تحت جمہوریت کہا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ بالکل نہیں کہا جا سکتا۔ تو پھر کیا اسے آئینی الیکشن کہا جائے گا یا سٹیٹس کو کے بازار حصص میں نوٹوں کے عوض اپنی مرضی سے ضمیر خریدنے اور ضمیر بیچنے کا مکروہ دھندہ۔
نااہلی کے پیروکار آج کل سیاسی اخلاق، آئین اور قانون کے خلاف نئے چورن پروموٹ کر رہے ہیں۔ جس بے ذائقہ چورن کو بیچنے کے لیے پنجاب اور وفاق کی بولیاں کھل گئی ہیں وہ ہے نااہل شریف کی پذیرائی کا دعویٰ ۔ لفافے کی ملاوٹ والی اس چورن میں لودھراں الیکشن کا مصالحہ بھی ڈالا جا رہا ہے ۔ چورن فروش یہ تو بتائیں ق لیگ کے اقتدار میں نون لیگ نے کتنے ضمنی الیکشن جیتے تھے؟ ساتھ کوئی چورن فروش یہ بھی بتا دے کہ سرکاری کونسلر ، وائس چیئرمین ، چیئرمین ، ایم پی اے، پٹواری، گرداور، ای ڈی او کے ماتحت ٹیچر، ڈی سی او، ڈی پی او، آر پی او مل کر جو ''منصفانہ‘‘ الیکشن جیتیں گے‘ اگر یہ مقبولیت کا معیار ہے تو پھر نااہل شریف اور حسنی مبارک دونوں کو پاپولیرٹی مبارک ہو ۔ یادش بخیر پچھلے دورِ حکومت میں جن سیٹوں پر حکومتی امیدوار ضمنی الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے‘ عین انہی نشستوں پر 2013ء کے عام انتخابات میں بیچاروں کی ضمانتیں بحقِ سرکار ضبط ہو گئی تھیں۔ ساتھ ساتھ آزادانہ سروے کرنے والے آزاد ماہرین کو بھی مبارک ہو ان کے سروے کے ساتھ پھر جمشید دستی ہو گیا یا پھر ہلری کلنٹن ۔

 

اوّلاً، جو شخص کسی عہدے کے لیے خود ہی اہل نہیں۔ کیا وہ کسی ایسے ایوان کے ارکان کو ٹکٹ جاری کر سکتا ہے، جس میں داخلے کی پہلی شرط ایسا حلفیہ بیان ہو جس میں لکھا ہے میں آئین کے آرٹیکل 62,63 کی رو سے نااہل نہیں ہوں اور نہ ہی میں جھوٹا یا بے ایمان شخص ہوں۔
سوالِ ثانی یہ ہے کہ اگر ایسی آئینی نااہلی کی زد میں کسی سیاسی پارٹی کا سربراہ آ جائے جو خود الیکشن لڑنے کے لیے آئینی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اس کے جاری کردہ ایوانِِ نمائندگان کے ٹکٹ آئینی طور پر مؤثر ہوں گے یا کالعدم۔ 
یہاں یہ بات مدِ نظر رہے پانامہ کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5 رکنی بینچ سے نااہلی کی سزا پانے کے بعد نااہل شریف نے نواز لیگ کے سینیٹ امیدواروں کو چاروں صوبوں، فاٹا اور آئی سی ٹی میں اپنی ذات کی نااہلی کے باوجود اہلیت کے پارٹی ٹکٹ جاری کر رکھے ہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں