چارہ گر‘ بے چارہ !

یہ ہینی بال کی فتوحات کے بعدکا واقعہ ہے۔ ایک جرائم پیشہ گروہ کے سربراہ نے یورپ کے جنگلوں میں اپنی حکومت قائم کی ، پھر ایک چھوٹی سی ریاست پر قبضہ کر لیا۔ اس ملک کی سربراہ خاتون تھی۔ جشنِ فتح کے طور پر اگلے دن حملہ آور نے کھلے میدان میں سلطنت کے شرفا اور کابینہ کے ارکان کو زمین پر لٹا کر زنجیروں میں جکڑ دیا۔ ہر قیدی کے دونوں بازو اور دونوں ٹانگیں مخالف سمت میں کھڑے چار گھوڑوں کے ساتھ باندھے گئے۔گھوڑے دوڑائے گئے تو قیدیوں کے پر خچے اُڑنا شروع ہوئے۔ قیدی ملکہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور حملہ آور سے رحم کی اپیل کر دی۔ کہا: سلطنت تمہارے زیرِ تسلط ہے، میں تمہاری قیدی ہوں، چاہو تو قیدیوں کو غلام بنا لو ، جو قیدی مزاحمت تک نہیں کر سکتے انہیں کیوں مار رہے ہو؟ فاتح اور مفتوح کے درمیان اس تاریخی ڈائیلاگ کو انگریزی زبان میں یوں محفوظ کیا گیا: ملکہ نے دستِ سوال بلند کرتے ہوئے کہا Why are you doing this ( تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟) فاتح نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا Because I can do this (اس لیے کہ میں یہ کر سکتا ہوں۔)
اس خون آشام کہانی کو تین ہزار سال بیت چکے ہیں مگر آج بھی ہر طاقت ور، ہر زیرِ دست کے ساتھ ساری زبردستیاں کرتا ہے۔ صرف اس لیے کہ قوت کے زور پر زبردست ایسا کر سکتا ہے؛ حالانکہ آج انسانیت کے لیے بدلا ہوا زمانہ ہے۔ ہر ریاست نے کسی نہ کسی شکل میں اپنے شہریوں کے ساتھ حفاظت ، ترقی، برابری، تعلیم، صحت اور سچائی کے رشتے کا عمرانی معاہدہ کر رکھا ہے۔ پاکستان کی ریاست نے اس عمرانی معاہدے کو دستورِ پاکستان مجریہ 1973ء کا نام دیا۔ اس دستور کی تخلیق کے دور میں حفیظ پیرزادہ ایڈووکیٹ وزیرِ قانون تھے جبکہ اس کی تشکیل ِ جدید کے وقت اٹھارہویں اور انیسویں ترمیم کے عرصے میں وزارتِ قانون کا قلمدان میرے پاس تھا، اس لیے مجھے فخر ہے کہ اس عرصے میں پاکستان کے دستور میں آرٹیکل 19-Aکا اضافہ ہوا۔ ان دنوں کے پارلیمانی مباحث گواہ ہیں کہ یہ بنیادی آئینی حق عملی طور پر بیوروکریسی اورسیاسی مافیازسے چھین کر لیا گیا۔ اس نئے بنیادی حق میں ہر شخص کو اختیار دیا گیا کہ اس کو عوامی اہمیت کے سارے معاملا ت میں اطلاعات تک مکمل رسائی ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ حق ملنے کے پانچ سال بعد بھی ریاست کے وسائل پر قابض ٹولے میڈیا، رپورٹروں، اہلِ دانش اور عوام کو اطلاعات کے قریب بھی جانے دے رہے ہیں؟ بڑے دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔ مگر کیوں ایسا نہیں ہوا؟ اس کی وجوہ کے ثبوت دیکھنا ہوں گے۔ لیکن اس سے پہلے آئین کے آرٹیکل نمبر 3کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے جس میں مواقع کی مساوات کے ذریعے سوشلسٹ نظام معیشت کاعندیہ دیا گیا۔
آج وسائل کی تقسیم کے لیے پارلیمنٹ اور حکومت کی پالیسی ایک ہی ہے۔ اس پالیسی کا نام ہے حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ۔ ہمارے معاشرے کے سب سے محترم اور قابلِ قدر بزرگ پینشنرز حضرات وسائل کی تقسیم کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ یہ آپ مجھ سے نہ سنیں بلکہ ایک 78سالہ پنشنر خواجہ جعفر رضا کا خط پڑھ لیں۔ خط 16مئی کو وزیرِخزانہ اسحق ڈار کے نام بھجوایا گیا جس کی ایک نقل کچھ اضافی سطروں کے ساتھ میرے نام بھی بھجوائی گئی۔
جناب اسحق ڈار صاحب، وزیرِ خزانہ حکومتِ پاکستان، اسلام آباد
عنوان: ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 5 سے 10فیصد کاگراں قدر اضافہ
غریب پرور، السلام علیکم!
قومی اخبارات میں 24 اپریل 2015ء کے صفحہ اول کالم 7 کی خبر کے مطابق حکومت نے آئندہ بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 5 سے10فیصد اضافے کا عندیہ دیا ہے۔خدا را ! حکومت ہم 70، 80 اور 90 سال کے صحت مند، توانا اور جوانِ رعنا پینشنرزکو یہ گراں قدر اضافہ نہ دے ، نہ ہی لاکھوں کی تنخواہ پانے والے نچلے درجے کے ملازمین کو اس اضافے کی ضرورت ہے۔ یہ خطیر رقم بیچارے غریب و نادار ملز و فیکٹریز اونرز، ہزاروں ایکڑ اراضی وباغات کے مالک، کروڑوں کے امپورٹرز و ایکسپورٹرز اور نہ جانے کن کن ذرائع سے لا محدود آمدنی حاصل کرنے والے سینیٹرز، ایم این ایز، ایم پی ایز، پارلیمانی کمیٹیوں کے چیئرمین و ارکان وغیرہ ، لاکھوں کے اندرون و بیرون ملک علاج معالجہ کرانے ، ہوائی جہاز سے سرکاری خرچ پر اندرون و بیرون ملک سفر کرنے اور قوم کے غم میں اسمبلی اجلاسوں میں نیندیں پوری کرنے والے بیچارے غریب غربا پارلیمینٹیرینزکو جو اپنے الیکشن پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر کے قوم کی خدمت کے لیے اسمبلیوں میں آتے ہیں، مجوزہ 5 سے 10فیصد اضافہ کی خیرات انہیں دے دیں۔
آج 16مئی 2015ء کے اخبارکے مطابق غریب پارلیمنٹیرینز کی انتہائی کم تنخواہوں میں ہزارہا روپے ماہانہ کا اضافہ کیا جائے گا۔ ایک بارپھر گزارش ہے، خدارا تنخواہوں اور پنشن میں یہ خطیر اضافہ ہمیں نہیں، ہمارے حکمرانوںکو دے دیں۔ ہم تو چراغِ سحری ہیں، آج ہیںکل نہیں ہوں گے۔
فقط 78 سالہ ایک پنشنر۔۔۔۔۔ خواجہ جعفر رضا، 4-A ، 4\\25 ناظم آباد ،کراچی
نقل بخدمت جناب ایڈوکیٹ بابر اعوان صاحب
بزرگ شہری ہوں یا گیس بجلی کے صارف ، آج کل یہ سب کسی چارہ گر کی تلاش میں ہیں۔ کاغذی طور پر پاکستان کا آئین عوام کے لیے چارہ گر ہے لیکن عملی طور پر یہ بے چارہ نہ اپنا تحفظ کر سکتا ہے نہ عوام کے بنیادی انسانی حقوق کا کیونکہ ریاست کے وسائل پر قابض حکومت کے منیجر عوام کو ملکی وسائل سے بے دخل کر چُکے ہیں۔اور تو اور ''خاص لوگوں‘‘ کو بھی عوامی نوعیت کے کسی معاملے میں اطلاعات تک رسائی نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر ایل این جی خریدنے کا معاہدہ ۔۔۔۔۔ چین ، ترکی اور افریقہ کی ان کمپنیوں کے نام جن کو پاکستان میں ٹھیکے مل رہے ہیں۔ آج کے زمانے میں کون نہیں جانتاکہ آف شور یا فرضی کمپنی بنا کر ماڈرن ذرائع سے لوٹ مارکرنا کتنا آسان ہے۔کیا ٹیکس دینے والے یہ جاننے کے حقدار نہیں کہ ان کی بھاری رقمیں کن ٹھیکوں میں جا رہی ہیں؟ ٹھیکدار کمپنیوں میں نام کس کا ہے، اس کے باریک کام کون کرتا ہے اور اس کے فرنٹ مین کون ہیں؟ آئین کا آرٹیکل 19-Aجن حقائق کو سامنے لانے کا حکم دیتا ہے ان پر پردہ ڈال کر اوپر سریا ، سیمنٹ اور جنگلہ لگایا جا رہا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ ایک ہی ہے کہ آج جو اطلاعات میڈیا تک پہنچتی ہیں ان میں غلطی کا خدشہ موجود رہے گا۔ اسے یوں سمجھ لیں کہ جب ریاست کے ادارے اطلاعات کو چھپائیں گے تو لازماًََ کالم نگار، رپورٹر، تجزیہ کار اور میڈیا اپنے سورس کے ذریعے اطلاعات تک پہنچے گا۔ ایسی اطلاعات درست ہو سکتی ہیں، کچھ غلط ملط بھی اورکئی مِس لیڈنگ یا گمراہ کن۔ جو ادارے اور حکمران اطلاعات کے نظام میں شفافیت چاہتے ہیں ان کو فوری طور پر اطلاعات تک رسائی کے سارے دروازے کھول دینے چاہئیں۔ صرف یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر غلط اور پلانٹ کی گئی اطلاعات کا سیلاب روکا جا سکتا ہے۔ دوسری صورت بہ اندازِ شاعری یوں بنتی ہے :
راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے
شہر میںڈھیر نہ لگ جائیں گریبانوں کے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں