بجٹ براستہ منی بجٹ

دنیا کی ہر فلاحی ریاست ریلیف کی بنیاد پر قائم ہے۔ رعایت، سہولت یا ریلیف دینے کے لیے پورے کرہ ارضی پر فارمولا ایک ہی ہے۔ریلیف نچلے طبقات،بے آسرا عوام اورغریب ترین محنت کشوں کا حق جانا گیا۔ ملک کی سطح پر ریلیف دینے کا طریقہ طے ہے۔ہر فلاحی ریاست میں دودھ،دوائی ،پانی اور کھانے پینے جیسی بنیادی ضرورت کی اشیاء پر کنٹرول رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔اس کنٹرول کے کئی راستے ہیں۔موثر ترین ذریعہ سبسڈی کا ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی چیز کی قیمت بڑھ جائے تو اسے کنٹرول کرنے کے لیے خریداری کی قیمت میں ریاست حصہ ڈالے۔ عوام کی قوتِ خرید اور یوٹیلٹی بِل وغیرہ میں ریاست کا حصہ سبسڈی سمجھ لیں۔ اس کے حقداروں میں ریٹائرڈ ملازم ،پینشنرز، بیوائیں، محدود آمدنی والے گروپس اور گھریلو بچتوں کی عادت رکھنے والے شہری بھی ہیں۔وزیراعظم کے سمدھی کی سربراہی میں معاشی کلرکوں کی جو ٹیم موجودہ بجٹ بنا رہی ہے‘ وہ پہلے بھی قوم کو تین بجٹ دے چکی ۔ڈار صاحب نے قوم کو پہلے بجٹ کا گفٹ پیک 2008ء میں پیش کیا تھا۔تب وہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں جونیئر پارٹنرکے طور پر شامل تھے۔آپ وہ بجٹ پڑھ لیں۔ اس کے فوراََ بعد چوتھا بجٹ خود بخود آپ کی سمجھ میں آجائے گا اور آپ کہہ اٹھیں گے ع 
تُم اک گورکھ دھندہ ہو
گزشتہ دو ہفتوں سے وزیراعظم ہاؤس کا کوئی پریس سیکرٹری بار بار ایک ہی بیان چلا رہا ہے۔بیان یہ ہے کہ وزیراعظم ٹیکسوںکا بوجھ عوام پر نہیں ڈالنا چاہتے۔وزارتِ خزانہ کو وزیراعظم نے ہدایات جاری کر دیں۔ان بیانات کے وقفے کے دوران نواز شریف کے سمدھی کی وزارت نے منی بجٹ کا فَلڈ گیٹ کھول دیا ہے۔کون نہیں جانتا اگر تیل،پٹرول، بجلی یاڈیزل کی قیمت بڑھے تو حجامت کے ریٹ بھی ساتھ ہی بڑھتے ہیں۔ میں اس حجامت کی بات نہیں کر رہا جو وزیراعظم کی ہدایت پر ان کے سمدھی غریب عوام کی کر رہے ہیں‘ بلکہ نائی شیو کے پیسے بڑھاتا ہے ،موچی ٹانکا لگانے کے ،سوزوکی والے سواری اٹھانے کے جبکہ دکان والا نان اور باقرخانی پکانے کے۔بجٹ کی تیاری کے عرصے میں منی بجٹ کی یلغار ہے۔ دوسری جانب وزارتِ خزانہ عوام پر 500ارب سے زائد کے براہ راست ٹیکس لگانے جا رہی ہے۔اِن ڈائریکٹ ٹیکس اب گنتی میں بھی نہیں آ سکتے ۔کچھ سوال بجٹ براستہ منی بجٹ کے موقع پر قوم کی طرف سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔
پہلا سوال یہ کہ حکومت یوتھ کو کیا دے گی۔پاکستان کی کُل آبادی کا 65فیصد پینتیس سال سے کم عمر کے نوجوان ہیں ۔یہ وہی یوتھ ہے جس کے کندھے پر چڑھ کر حکمران اقتدار تک پہنچے ہیں۔ساری دنیا میں فلاحی ریاستیں ہر سال ملازمتوں کے تین ملین نئے مواقع پیدا کرتی ہیں۔میری اطلاعات کے مطابق ابھی تک کسی وزارت نے ایسی منصوبہ بندی نہیں کی نہ ہی وزارتِ خزانہ یا انسداد پلاننگ کی وزارت کو نوجوانوں کے معاملات میں کوئی دلچسپی ہے۔ہاں البتہ پنجاب میںہر سال نوجوانوں کے لیے سب سے زیادہ روٹیاں کھانے کا مقابلہ منعقد کرایا جاتا ہے‘ جس میں ابّا میاں اور دادا ابو کی عمر کے ''نوجوان‘‘ روٹی کے مقابلہ میں شریک دکھائی دیتے ہیں۔کیا وزارتِ خزانہ کسی ایسے منصوبے کی نشاندہی کر سکتی ہے جس کے ذریعے لاکھ دو لاکھ لوگوں کو نئی ملازمت مل سکے؟ 
دوسرا سوال غیر حقیقی اور غیر پیداواری قرضوں کے پیٹ سے نکلتا ہے۔حکومت مسلسل دعوے کرتی ہے کہ اس نے اربوں کھربوں کے قرضے جوانوں کو دیئے۔ تو کیا بے روزگاری ختم ہوئی...؟بھوک کم ہوئی...؟یا قرضے سرکار کے پسندیدہ حلقوں اور لوگوں کی جیبوں میں چلے گئے؟ قرضوں والے ڈرامے کے ذریعے فوٹو سیشن کروانے کے بجائے سمال اور میڈیم انڈسٹری کیوں نہ لگائی گئی۔یابیمار صنعت کا علاج کیوں نہ کیا گیا ۔حالانکہ یہ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کا آسان ترین ذریعہ ہے اور انتہائی تیز رفتار شاٹ کَٹ بھی۔قوم کے میزانیے کے ذمہ دار ان سوالوں کا جواب تو یقینا نہیں دے سکتے‘ کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ اس سال کتنی بیمار صنعتیں صحت مند ہو جائیں گی۔ کتنے چھوٹے یا درمیانے نئے یونٹ لگیں گے اور ان میں مزدور،ہنر مند، انجینئرزاور مینیجرز کو کتنی نئی نوکریاں ملیں گی؟
تیسرا سوال یہ کہ وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لیے کون سی خوشخبری ہے؟ مصدقہ ذرائع کے مطابق سرکاری ملازمین کو سکیل پر نظر ثانی کے نام پر تنخواہ میں 7فیصد اضافے کا لالی پاپ پیش کیا جائے گا۔وزارتِ خالی خزانہ نے فیصلہ کر لیا ہے اس سال سرکاری ملازمین کے اہم ترین الاؤنسز میں اضافہ نہیں ہوگا۔جن اہم لاؤنسز میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، وہ میڈیکل الاؤنس،ٹرانسپورٹ ا لاؤنس اور تین متفرق الاؤنس ہیں۔میری خواہش تھی کہ بجٹ کے بارے میں سرکاری ملازمین کو کوئی اچھی خبر دے سکوں‘ لیکن میری طرف سے محدود آمدنی والے بجٹ سے پہلے ہی معذرت قبول کر لیں۔سمدھی کے ایک اور فیصلے کے مطابق 20فیصد ایڈ ہاک الاؤنس اور50فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس ''فریز‘‘ رکھاجائے گا‘ جس کا مطلب یہ ہوا کہ سروس آف پاکستان میں چھوٹے ملازمین کے ہاتھ کچھ نہیں آنے والا‘ لیکن بڑے بیوروکریٹ بڑے خزانے کو ایک بار پھر ہاتھ د کھا جائیں گے۔جو لوگ اپنی ضروریات پوری کرنے اور خریداری کے لیے بازار جاتے ہیں وہ اگلے چوبیس گھنٹے میں ''معاشی دھماکہ‘‘ کے تباہ کن اثرات سے بچنے کا بندو بست کر لیں۔عین ممکن ہے جب یہ وکالت نامہ آپ کے ہاتھ میں آئے اُس وقت تک غریب عوام کا ''معاشی دھماکہ‘‘ ہو بھی جائے۔ اس دھماکے میں پٹرولیم مصنوعات کو ویسے ہی استعمال کیا جا رہا ہے جس طرح دہشتگرد کار اور موٹر سائیکل دھماکے میں بال بیرنگ، کیل اور ہر کسی کو زخمی کرنے والے چھرّے استعمال کرتے ہیں۔ وزارتِ بجلی نہ پانی کی فرمائش پر اوگرا سے جو سمری بنوائی گئی‘ اس میں غریبوں کے پرخچے اڑانے والے کیل کانٹوں کی تفصیل شامل ہے۔
مثال کے طور پر پٹرولیم کی قیمتوں میں 13روپے فی لٹر کے حساب سے اضافہ ۔آپ ذرا سوچیں کہ بجٹ سے صرف4 راتیں پہلے عوام کی جیب پر اس ڈاکہ زنی کے بعد مہنگائی کا گراف کہاں پہنچے گا؟دوسری بات ، پٹرولیم کی قیمت بجلی سے لے کر چینی کی پیداواری لاگت تک‘ ٹرانسپورٹ کے کرایوں سے ریستوران تک‘ ہر جگہ مہنگائی کا سونامی آئے گا۔پھر تازہ ترین اطلاعات کے مطابق عوام پر پٹرول بم گرانے کی تیاری مکمل ہے۔ صرف ڈیزل پر 3ٹیکس ہم سب کو حیران کرنے کے لیے کافی ہیں،بلکہ پریشان بھی۔ ڈیزل کے ہر لٹر پر34روپے جنرل سیلز ٹیکس۔ دوسرا برائے نام ٹیکس 2فیصد ۔ تیسرا 17روپے فی لٹر لیوی چارجز ۔
اس وقت عملی طور پر ہر طرف منی بجٹ کا راج ہے ۔نہ کوئی بجٹ بنانے والوں سے پوچھ رہا ہے کہ وہ کیا بنا رہے ہیں‘ نہ ہی سول سوسائٹی، جمہوری واچ ڈاگ بننے والی این جی اوز یا اپوزیشن کی کسی جماعت نے ماڈل بجٹ بنایا۔غریب عوام ،محنت کش،ہاری،دیہاڑی دار مزدور،کنٹریکٹ ملازمین،زرعی ورکر،کسان،خواتین،پینشنرز اور محدود آمدنی والے پریشان ،ذلیل و خوار اور بد حال ہیں۔سیاسی مافیاز ان کے ایجنٹ اور ''ماڈل‘‘ خوشحال ہی خوشحال ۔یوں لگتا ہے انسانوں اور حکمرانوں کا بجٹ علیحدہ علیحدہ بنتا ہے: 
انساں ہے بے قرار، کوئی پوچھتا نہیں
فطرت ہے اشکبار، کوئی پوچھتا نہیں
بکھری پڑی ہیں جیب و گریباں کی دھجیاں 
داماں ہے تار تار، کوئی پوچھتا نہیں
پلتے ہیں سیم و زر سے رعونت کی گود میں
اربابِ اختیار، کوئی پوچھتا نہیں
ہے نظمِ انقلاب لفنگوں کے ہاتھ میں
پھرتے ہیں میر خوار، کوئی پوچھتا نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں