کئی برسوں سے ایک عرب ملک کی خواتین اپنے ملک میں گاڑی چلانے کے حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہدکررہی ہیں۔گزشتہ ہفتے ان میںسے کچھ نے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کار کا اسٹیرنگ سنبھال لیا اور ویڈیوز انٹر نیٹ پر پوسٹ کردیں۔ یہ تصاویر اور ویڈیوز برق رفتاری سے دنیا بھرکی توجہ کا مرکز بن گئیں؛تاہم ان خواتین کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر وہ جوان ہیںاور بچے پیدا کرسکتی ہیں تو پھر انہیں ایک عرب عالم دین شیخ صلاح الحیادن (Sheikh Salah al-Luhayadan) کافرمان یاد رکھنا چاہیے جن کے مطابق’’ کار چلانے سے عورتوں کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔‘‘یقیناً شیخ صاحب نے اس پر سائنسی تحقیق کی ہوگی۔ایک ماہ قبل جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں نے سنجیدگی سے اپنی سوتیلی بیٹیوںکو گاڑی چلانے سے خبردار کردیا کیونکہ وہ ابھی جوان ہیں اور میں ایک باپ ہوتے ہوئے نہیں چاہتا تھا کہ وہ دنیا سے بے اولاد رخصت ہوں۔ گاڑیوں کا کیا ہے، وہ تو چلتی ہی رہتی ہیں۔ ان باتوں سے ایک حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ جدید دنیا میں مسلمان خود کوکس طرح پیش کررہے ہیں۔اکیسویں صدی میں ایک عرب ملک کی نصف سے زائد آبادی ہنوز گاڑی چلانے کے حقوق سے محروم ہے ۔مبینہ طور پر اُس معاشرے میںاگر کوئی عورت گھر سے باہر نکلے اور اس کے جسم کاکوئی حصہ دکھائی دے توسرکاری اہلکاراُسے درّے مارتے ہی۔وہ کسی محرم مرد کے بغیر سفر بھی نہیں کرسکتیں۔یہ ملک تیل کے وسیع ذخائر سے مالا مال ہونے اور کچھ دوسری وجوہ کی بنا پراپنی سرحدوں سے باہر بھی بہت سے لوگوں کی زندگیوں کومتاثر کرتا ہے۔ اس تنگ نظری کی ایک مثال ملائیشیا کی ایک عدالت میں دائر کی جانے والی درخواست ہے ۔اس عدالت نے حکم دیا تھا کہ غیر مسلم لفظ ’’اﷲ‘‘ ادا نہیں کرسکتے ؛ حالانکہ کئی صدیوں سے ملائیشیا میں رہنے والے عیسائی اس لفظ کو ’’خدا، معبود، مالک اور خالق ‘‘ کے معنوں میں استعمال کررہے تھے۔ ملائی زبان میں اور کوئی لفظ اس مطلب کو ادا نہیںکرسکتا لیکن ملائیشیا کے وزیر داخلہ سید حامد البار نے 2007ء میں غیر مسلموں کو اس لفظ کی ادائیگی سے روک دیا۔ کوالالمپور کے آرچ بشپ نے اس پابندی کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا اور دو سال بعد یہ کیس جیت لیا جس کے نتیجے میں ملک میں فسادات پھوٹ پڑے اور عیسائی آبادیوں پر حملے دیکھنے میں آئے۔ چار سال بعد اس فیصلے پر نظرِِ ثانی کی اپیل کا فیصلہ آیا اور اعلیٰ عدالت نے غیر مسلموں کو لفظ ’’اﷲ‘‘ کی ادائیگی سے روک دیا۔ اس فیصلے پر انتہا پسند مسلمانوںنے جشن منایا۔ فیصلہ سنائے جانے کے دن عدالت کے باہر انتہا پسندجمع تھے۔ فیصلہ سنتے ہی اُنھوں نے جوش سے نعرہ لگایا۔۔۔’’اﷲ ہمارا ہے!‘‘ واقعی؟ خیر سے کب سے آپ نے اس لفظ کو اپنی اجارہ داری میں لیا ہے؟لفظی طور پر اس کا ترجمہ ہے۔۔۔’’خدا، پروردگار، معبود‘‘۔۔۔ اور یہ لفظ اسلام کی آمد سے صدیوں پہلے عربی زبان میں موجود تھا اور وہ زبان مختلف قبائل کے زیر استعمال تھی۔ اس لفظ کااوّلین استعمال ایک تحریر میں ملتا ہے جو 1700قبل مسیح کی ہے۔ عربی زبان بولنے والے مختلف قبائل اسے خداکے معنوں میں استعمال کرتے رہے اور ان میں سے بہت سے ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے، حتّٰی کہ مالٹا میں مقیم رومن کیتھولک آبادی بھی اپنے معبود کے لیے لفظ ’’اﷲ‘‘ استعمال کرتی تھی۔ اس فیصلے کے بعد، جیسا کہ توقع تھی، مغربی میڈیا میں یہ ایک دھماکہ خیز خبر بن گئی۔ ملائیشیا کے وزیراعظم نجیب رزّاق کے حالیہ دورہ لندن میں جب ان سے اس موضوع پر بات کی گئی تو اُنھوںنے جواب دیا کہ ان کے ملک کے استحکام کے لیے یہ فیصلہ ضروری تھا۔ مسٹر نجیب کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے ملک میں مقیم ہندوئوں، عیسائیوں اور بدھ مذہب کے پیروکاروں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ؛حالانکہ وہ ملک کی آبادی کا تیسرا حصہ ہیں۔ بہرحال، ملائیشیا میں عدم برداشت کی صرف یہی ایک مثال نہیں، چند سال پہلے وہاں کے ایک مفتی نے مسلمانوں کو یوگا کی مشق کرنے سے منع کردیا تھا۔ اُس وقت میں نے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کالم لکھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب مجھے ان گنت ای میلز وصول ہوئیں اور قارئین کی بڑی تعداد نے میری حمایت کی۔ سوڈان کے شہر خرطوم سے ایک ویڈیو اپ لوڈ کی گئی ہے۔ اس کلپ میں حلیمہ نامی ایک خاتون کو پولیس اہلکار سر ِعام ماررہا ہے کیونکہ وہ کار میں ایک مرد کے ساتھ سفر کر رہی تھی جو اُس کا رشتہ دار نہیںتھا۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دیکھنے والوںنے اس کلپ کے نیچے کیسے کیسے تبصرے لکھے ہوں گے۔ان اقدامات سے بغاوت پیدا ہونے کی ایک مثال سوڈانی عورت عامرہ عثمان حمید کی ہے جس نے اعلان کیا ہے کہ وہ سرڈھانپنے کے حکم کی پابندی نہیں کرے گی چاہے اُسے کوڑے کیوں نہ مارے جائیں۔ ترکی نے جو بنیادی طور پر سیکولر آئین رکھتا ہے، مذہبی تصورات کو قوانین میں شامل کرلیا جس پر سیکولر آبادی کی طرف سے احتجاج کیا گیا۔ اب پاکستان میں جو لوگ کالعدم تحریک ِ طالبان پاکستان سے مذاکرات پر زور دے رہے ہیں(اگرچہ اب ان کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے)اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں موسیقی، کھیل کوداور لڑکیوںکے لیے تعلیم پر پابندی تھی۔ لڑکے بھی صرف دینی تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔ اسی طرح کمپیوٹر، ٹی وی اور سینما بھی اُس ملک میں ممنوع تھے۔ اب تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی شرط یہ ہے کہ پہلے حکومت ان کی تشریح و تعبیر کے مطابق ملک میں شریعت نافذکرے پھر وہ بات چیت کریںگے۔ اس بنیادی مطالبے کے بعد مذاکرات کی کیاگنجائش رہ جائے گی۔ اگر نواز شریف اور عمران خان کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ مذاکرات کے بغیر ہی یہ ریاست طالبان کے حوالے کرنے کا پروگرام بنا چکے ہیں۔ اس سے پہلے ملالہ یوسف زئی کو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے پر گولی ماری جاچکی ہے اور طالبان کی دھمکی ہے کہ چونکہ وہ بچ گئی ہے اس لیے وہ پھر ایسا ہی کریںگے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مخصوص ذہنیت اسلام کا چہرہ داغ دار کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں مذہب کوسیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کیا یہ مذہب کی توہین کے زمرے میں نہیںآتا ؟اگرچہ پاکستان میں بظاہر جمہوری حکومت ہے لیکن عملاً تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل نہیں ہیں۔ان کے ساتھ کم درجے کے شہریوں والا سلوک کیاجاتا ہے۔ طالبان کی طرف سے پشاور میں چرچ پر ہونے والے حملے، جس میں 80کے قریب شہری ہلاک ہوئے، ملک میں پھیلی ہوئی انارکی اور انتہا پسندی کی ایک مثال ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام اسلامی دنیا میں عیسائیوںکو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مصر میں قبطی عیسائیوں کے چرچوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ ان حملوں میں سینکڑوں عیسائی باشندے ہلاک ہوچکے ہیں۔ شام میں ہونے والی خانہ جنگی میں مخالف نظریات رکھنے والوں کو چن چن کر ہلاک کیا جارہا ہے۔ عراق سے لاکھوں عیسائیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ان تمام مثالوںسے ایک حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ہم دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے کوئی اور دنیا نہیں، ہم اسی دنیا میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ہم تنگ نظری کو عقیدے کا درجہ دے کر دنیا کے سامنے خود کو مذاق بنا لیتے ہیں۔ ہم جتنا چاہے زور دے کرکہتے رہیں کہ اسلام ایک روشن خیال، مصلحت بین، انسان دوست اور سلامتی کا مذہب ہے، باقی دنیا ہمارے افعال دیکھ کر ان باتوں کے برعکس سمجھتی ہے۔