کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے

کوئی خواہ کچھ کہے، خواجہ آصف نے گزشتہ روز میاں نواز شریف اور ان کے مداحوں کا کلیجہ ٹھنڈا کردیا۔ 126 دنوں کا غصہ یوں نکالا کہ طلال چودھری، عابد شیر علی اور رانا ثناء اللہ ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ میرا خیال تھا کہ میاں صاحب خواجہ صاحب کو اس حق گوئی و بے باکی پر داد دیں گے، گلے سے لگائیں گے، ماتھا چومیں گے اور منہ موتیوں سے بھر دیں گے مگر وہ خاموش رہے۔ ہرگز ظاہر نہ ہونے دیا کہ ان کے من میں لڈو پھوٹ رہے ہیں اور وہ اپنے اس متوالے کی بلائیں لینے کو بے تاب ہیں۔
خواجہ آصف کو عمران خان اور تحریک انصاف سے زیادہ غصہ تو سپیکر ایاز صادق اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر تھا جو تحریک انصاف کے مستعفی ارکان کو ایوان میں لائے مگر وہ جو پنجابی کی کہاوت ہے ''ڈگی کھوتے توں تے غصہ کمہار تے‘‘ (گری گدھے سے مگر غصہ کمہار بے چارے پر) اس کے مصداق خواجہ صاحب، ایاز صادق کو کچھ کہہ سکتے ہیں نہ اسحاق ڈار سے احتجاج کا یارا رکھتے ہیں اس معاملے میں خواجہ صاحب حق گوئی و بے باکی کے بجائے صبر کو ترجیح دیتے ہیں اور تسلیم رضا کا پیکر بن جاتے ہیں۔
واپڈا میں عابد شیر علی ان کی نہیں چلنے دیتے اور وزارت دفاع میں وہ بن بلائے مہمان لگتے ہیں۔ پروٹوکول میں ان کا نمبر تیسرا ہے۔ نمبر ون صدر، نمبر ٹو وزیراعظم اور نمبر تھری وزیر دفاع مگر آج کل کس کو کیا پروٹوکول ملتا ہے کہنے کی ضرورت نہیں۔ تصویریں سب دیکھتے ہیں اور اندازہ بھی سب کو ہے انتخابی دھاندلی کا شور مچا تو دیگر وزیروں کی طرح خواجہ صاحب بھی یہ جتلانے میں پیش پیش رہے کہ اس سے زیادہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کبھی ہوئے ہی نہیں مگر اب جوڈیشل کمشن بنا کر مان لیا گیا ہے کہ دھاندلی ضرور ہوئی ہے کتنی؟ یہ کمشن بتائے گا۔ اس پر خواجہ صاحب ناراض ضرور ہوں گے۔ اتنا زیادہ غصہ نکالنے کے لئے خواجہ آصف کو پارلیمنٹ کا سیشن موزوں نظر آیا سو انہوں نے نکال لیا۔ دل کا غبار بھی نکل گیا اور وزیراعظم بھی خوش۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔
اب مخالفین جو چاہیں کہیں‘ کہتے پھریں خواجہ صاحب کی بلا سے۔ کسی کو قومی اسمبلی کا وہ اجلاس یاد آ رہا ہے جس میں کھڑے ہو کر خواجہ آصف نے فوج کو ملاحیاں سنائی تھیں، پرویز مشرف کا غصہ پوری فوج پرنکالا، 1965ء، 1971ء اور کارگل جنگ کے طعنے دیئے مگرجب 2008ء میں آصف علی زرداری نے وزارتوں کی بندر بانٹ کی تو خواجہ آصف اسی جنرل پرویز مشرف کے سامنے حلف اٹھانے پہنچ گئے اور اطمینان سکون سے اٹھایا۔ 12 اکتوبر کا اقدام یاد رہا نہ پرویز مشرف کی غیر آئینی صدارت اور نہ فوج کے خلاف مشہور زمانہ تقریر جس پر وہ ہمیشہ فخر کیا کرتے تھے۔خواجہ صاحب یہ تک نہ کہہ پائے کہ آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں کی تو مجبوری ہے کہ وہ ایک غاصب اور آمر کے سامنے حلف اٹھائیں این آر او جو کیا ہے مگر ہم کیوں نہ ذلت برداشت کریں؟ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔
دور کی یہ کوڑی لانے والوں کی بھی کمی نہیں کہ سعودی عرب سے بری، بحری اور فضائی فوج بھیجنے کی فرمائش موصول ہونے پر کابینہ کے جو ارکان اپنے آزمودہ دوست کی خواہش فوری طور پر پوری کرنے کے لئے بے تاب تھے اور احسان کا بدلہ احسان کی صورت میں چکانا چاہتے تھے انہیں پارلیمنٹ کا اجلاس زہر لگا جہاں یمن جنگ میں غیر جانبدار رہنے اور ریالوں کی بہتی گنگا میں اشنان نہ کرنے کے مشورے دیئے جا رہے ہیں۔ خواجہ صاحب نے اپنے دل کی بھڑاس نکال کر پارلیمنٹ سیشن کو ایک غیر سنجیدہ کارروائی ثابت کیا۔ دانیال عزیز، طلال چودھری اور دوسرے ارکان کی ہلڑ بازی بھی اس سلسلے کی کڑی تھی تاکہ کوئی نہ سمجھ لے کہ یہ فورم واقعی کسی اہم قومی یا بین الاقوامی معاملے پر بحث یا غور و خوض کا فورم ہے اور فیصلہ سازی کے عمل میں اس کی سفارشات اہمیت رکھتی ہیں۔ اگر یہ اجلاس واقعی نتیجہ خیز بحث مباحثے اور قومی امنگوں سے ہم آہنگ فیصلوں کے لئے بلایا گیا ہوتا تو تحریک انصاف کی آمد پر ہلڑ بازی اور یا وہ گوئی کے دوران کوئی نہ کوئی ضرور پکار اٹھتا۔خدا کا خوف کرو‘ ہم ایک قومی معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں اور آپ نے ایوان کو مچھلی بازار بنا رکھا ہے۔ سپیکر کی بات بھی نہیں سن رہے، کوئی اخلاقیات ہوتی ہے کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔
ناقدین کی زبانیں بھلا کون بند کر سکتا ہے کسی کو چھ ماہ میں بجلی کا بحران ختم کرنے ورنہ نام بدل دینے کے بیانات یاد آ رہے ہیں کسی کو آصف علی زرداری کو بھاٹی چوک میں گھسیٹنے اور کسی کو لوٹی ہوئی دولت اگلوانے کے دعوے اور کوئی رینٹل پاور پروجیکٹس اور میمو سکینڈل کے بارے میں پوچھتا ہے کہ ملک دشمنی، غداری اور لوٹ مار کے مرتکب کردار کب سزا یاب ہو رہے ہیں؟ کیونکہ میاں نواز شریف اور خواجہ آصف رینٹل اور میمو کیس میں مدعی تھے اور خواجہ آصف نے انہیں سزا دلانے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ ایک اور کیس بھی تھا جو خواجہ صاحب نے پیمرا میں دائر کیا تھا اور اپنے انٹرویو میں کہا تھاکہ میں ہرگز اس سے دستبردار نہیں ہوں گا مگر اب کسی کو یاد نہیں۔ کسی ملک دشمن اور لٹیرے کو پکڑنا درکنار، اسے گلیوں میں گھسیٹنا اور چوراہوں میں لٹکانا تو دور کی بات‘ کوئی یہ کہنے والا بھی نہیں۔ کچھ شرم کرو، کوئی حیا کرو۔ حد ہے ڈھٹائی کی بھی۔
سانپ نکل گیا ہے اب لکیر پیٹنے سے فائدہ۔ خواجہ صاحب قسمت کے دھنی ہیں بولے تو اسحاق ڈار نے ٹوکا نہ وزیراعظم نے روکا اور عمران خان کے ساتھیوں نے موقع پر مداخلت کی شاید تیاری نہیں تھی یا وہ کڑوی کسیلی سننے اور جواب نہ دینے کی حکمت عملی بنا کر آئے تھے عمران خان کے بارے میں البتہ مجھے یقین ہے کہ وہ اس سے کبیدہ خاطر ہوئے ہوں گے اور اپنے بعض ساتھیوں کے مشورے پر موجودہ پارلیمنٹ اور حکمرانوں کے بارے میں انہوں نے موقف میں جو نرمی پیدا کی تھی اس پر نظرثانی کا سوچا ہو گا۔ ممکن ہے اپنے بعض اعتدال پسند ساتھیوں کی انہوں نے شام کو کلاس بھی لی ہو کہ ان پر اعتماد کرتے ہو جو اعتزاز احسن کے الفاظ میں مصیبت اور مشکل میں ہوں تو پائوں چھوتے اور منتیں ترلے کرتے ہیں‘ بحران سے نکل جائیں تو گلے پڑتے اور سب قول، اقرار، عہدوپیمان بھول جاتے ہیں۔
تفنن برطرف اس روز پارلیمنٹ میں جو ہوا وہ پہلی بار نہیں ہوا پارلیمنٹ کے پچھلے اجلاس میں جو دھرنا کے خلاف بلایا گیا ایسا ہی تماشا چودھری نثار علی خان اور چودھری اعتزاز احسن کے مابین تکرار کی صورت میں ہوا۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ چودھری اعتزاز احسن نے چودھری نثار علی خان کی ''عزت افزائی‘‘ کی تو میاں صاحب نے اپنے وزیر داخلہ کو جواب آں غزل سے روک دیا تھا کیونکہ اس وقت حکومت کی بقاء و استحکام کا انحصار پیپلز پارٹی کی حمایت پر تھا۔ آسمانِ اقتدار کو پیپلز پارٹی نے اپنے سینگوں پر اٹھارکھا تھا۔ اب خواجہ آصف کی حق گوئی و بے باکی پر میاں صاحب معترض نہیں مطمئن تھے ع
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایم کیو ایم نے بھی عمران خان اور تحریک انصاف کے استعفوں کا معاملہ شدومد سے اٹھایا اور الطاف بھائی سے لے کر فاروق ستار اور خالد صدیقی تک یہ طعنہ دیا کہ استعفے طلاق کی طرح ہوتے ہیں ہو گئے تو ہو گئے، شاید بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘ کیونکہ استعفیٰ دینے اور واپس لینے کے معاملے میں الطاف بھائی کا ریکارڈ آج تک کوئی توڑ نہیں سکا پچھلے ہفتے بھی وہ قیادت سے استعفیٰ دے کر واپس لے چکے ہیں۔ یہ طلاق رجعی تھی، بائنہ یا مغلظہ؟ ایم کیو ایم اب ان پر حلال ہے تو حلالہ کی رسم کب اور کہاں ادا ہوئی؟ ایم کیو ایم ہی بتا سکتی ہے؟
پاکستان بدترین دہشت گردی، لاقانونیت، خلفشار اور غربت و افلاس کا شکار ہے۔ اغواء برائے تاوان کی وارداتیں اب لاہور میں بھی ہونے لگی ہیں جہاں امن و امان کی صورتحال کئی برس پہلے تک مثال تھی۔ یمن کا تنازعہ ہمیں اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے بے قرار ہے مگر ہماری پارلیمنٹ مچھلی منڈی بنی ہے اور خواجہ آصف مظہرشاہی انداز میں اپنے ان حریفوں کو للکار رہے ہیں جو ایک بار پھر باہر نکل گئے تو جس شاخ نازک پر مسلم لیگ (ن) کا آشیانہ ہے وہ ایک بار پھر مخالفانہ ہوائوں کی زد میں ہو گا۔ اب کی بار شاید آصف علی زرداری بھی ان کی مدد نہ کر سکیں ع ہر روز روزِ عید نیست کہ حلوہ خورد کسے۔ شاید ریالوں کی ریل پیل کا سن کر حواس قابو میں نہیں رہے۔
کون، کس سے کہے، ایک دوسرے کے منہ کیا دیکھتے ہو، کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں