"MMC" (space) message & send to 7575

حلفِ وفا

ایک اخباری نمائندے کا فون آیا کہ بعض سیاسی رہنما اپنی جماعت کے عہدیداران و کارکنان سے اپنی ذات کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھانے کا تقاضا کرتے ہیں ،اس کی شریعت میں کس حدتک گنجائش ہے۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے عصرِ حاضر کی سیاست وقیادت کے دستور اور منشور کا تو پتانہیں ، البتہ دینِ اسلام اور شریعتِ مصطفویﷺ میں غیر مشروط اطاعت ووفا صرف اور صرف اﷲتعالیٰ اورا س کے رسولِ مکرمﷺ کی ذات کے ساتھ لازم ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا تقاضا اُس کے اَحکام کی غیر مشروط تعمیل اور تسلیم ورضا ہے ، اس میں چوں وچِرا کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اے ایمان والو! اﷲکی اطاعت کرو اور (اس کے) رسول کی اطاعت کرواور (اُن کی بھی) جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں ، پس اگر تمہارا کسی معاملے میں باہم اختلاف ہوجائے، تواس متنازع مسئلے کو حتمی فیصلے کے لئے اللہ اور (اس کے ) رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پرایمان رکھتے ہو،تمہارے لئے یہی (طرزِ عمل) بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے ‘‘ (النساء:59)۔ مزید فرمایا:'' جس نے رسول کا حکم مانا ، اُس نے (درحقیقت) اللہ ہی کا حکم مانا‘‘ (النساء:80)۔
اِس آیت میںاللہ تعالیٰ نے حتمی اور قطعی طور پر فیصلہ فرمادیا کہ صرف اللہ عزوجل اور اس کے رسولِ مکرمﷺ کی غیرمشروط اطاعت لازم ہے ۔ اور صرف رسول اللہ ﷺکی ذات‘ حق کی معرفت کے لئے معیار ہے۔ مخلو ق میں سے کوئی کتنا ہی بلند مرتبہ ہو،اس کی اطاعت مشروط ہے اور اُس کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں سوال ہوسکتاہے، اُس سے اختلاف کی گنجائش ہے ۔ یعنی کون حق پر ہے اور کس کا موقف باطل ہے ؟،اِس کے حتمی فیصلے کے لئے کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہﷺ سے رجوع کیا جائے گا۔ چنانچہ رسول اکرمﷺ کا فرمان ہے: '' میں تمہارے پاس دو عظیم المرتبت چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ،جب تک اِن کے ساتھ مکمل طور پر وابستہ رہو گے ، تم کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے،یعنی اللہ کی کتاب اور اُس کے نبیﷺ کی سنّت ‘‘ (مؤطا امام مالک ، کتاب القدر)۔ اور آپﷺ نے یہ بھی فرمایا: ''کسی بھی باطل امر میں مخلوق کی اطاعت لازم نہیں ہے ،جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا سبب بنے‘‘(صحیح مسلم: 4761)۔
نبی کریمﷺ کے پہلے خلیفۂ راشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اولین خطبۂ خلافت میں حکومتِ اسلامی کے دستور کی اساس یوں بیان فرمائی :''اے لوگو! میں تم پر حاکم بنایا گیا ہوںحالانکہ (میرا ہرگز یہ دعویٰ نہیں ہے کہ) میں تم سب سے بہتر ہوں ، سو اگر میں (قرآن وسنت کے جادۂ مستقیم پر) ٹھیک ٹھیک قائم رہوں ، تو تم پر میری اطاعت لازم ہے اور اگر میں (اس جادۂ مستقیم سے اِنحراف کرتے ہوئے) غلط روش اختیار کروں ، تو تم مجھے سیدھا کردو‘‘ ۔اور خطبے کے اختتام پر ایک بارپھر آپ نے اس اصول کا اِعادہ فرمایا: ''جب تک میں اللہ تعالیٰ اورا س کے رسول کی اطاعت کروں، تو تم پر لازم ہے کہ میری اطاعت کرو اور اگر (خدانخواستہ) میں راہِ حق سے انحراف کروں، تو تم پر میری اطاعت(کسی بھی صورت میں) لازم نہیں ہے‘‘۔ اِسی طرزِ حکمرانی کو ''خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘‘ کہتے ہیں اور کوئی بھی مسلم حاکم یا سربراہ اِس منہاج (Pattern)سے مُستثنیٰ نہیں ہے ۔
رسول اللہﷺ نے حدیثِ مبارَک میں اس کی مزید وضا حت یوں فرمائی :''جس نے محمدؐ کی اطاعت کی، اس نے(درحقیقت) اللہ ہی کی اطاعت کی اور جس نے محمدؐ کی نافرمانی کی، اس نے (دراصل) اللہ ہی کی نافرمانی کی، (کیونکہ) محمدﷺ لوگوں کے درمیان حق وباطل کی معرفت کے لئے معیار اور کسوٹی ہیں‘‘(صحیح بخاری: 7281)۔ اور صحابۂ کرام رسول اکرمﷺ کی غیر مشروط اطاعت کے اُسی جادۂ مستقیم پر چلتے ہوئے دنیا پر چھاگئے اور اپنے عہد کی واحد سپر پاور بن گئے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے عہدِ خلافت میں اس وقت کی دو سپر پاورزاسلا م کے آگے سرنگوں ہوگئیں ۔ سو کسی بندے کا اپنے کسی ماتحت سے اس طرح کی غیر مشروط اطاعت کا مطالبہ کرنا کہ جس سے اختلاف کی گنجائش نہ ہو ، اُسے چیلنج نہ کیا جاسکے ، اس کا فرمان حق کی کسوٹی بن جائے ، یہ'' شرک فی الرسالت ‘‘ ہے،کیونکہ غیر مشروط اطاعت صرف معصوم ہی کی ہوسکتی ہے اوروہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔
شریعت کی رو سے جائزامور پرحلفِ وفاداری اور پیمانِ وفا لیا جاسکتا ہے اور ایسے حلف کی پاس داری لازم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ نے قیادت سے وفاداری اور وفا شعاری کا معیار تعلیماتِ نبوی اور اسوۂ رسولؐ کو بنایا اور اس سے سرِمُو انحراف نہیں کیا۔چنانچہ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ'' رسول اللہﷺ نے (کفار کے مقابلے کے لئے )ایک لشکر بھیجا اور ان پر ایک شخص کو امیر بنایا، اُس (امیر نے) آگ جلائی اور سپاہیوں سے کہا کہ اس آگ میںداخل ہوجاؤ، بعض لوگ (اطاعت امیر کو لازم سمجھتے ہوئے) اس کے لئے تیار ہوگئے ، لیکن کچھ دوسرے سپاہیوں نے کہا کہ آگ سے بچنے کے لئے توہم نے اسلام قبول کیا ہے ، اس واقعے کو (واپسی پر) رسول اللہﷺ کے سامنے بیان کیا گیا، تو آپﷺ نے اُن مجاہدین کو جو امیر کے حکم پر آگ میں داخل ہونے کے لئے تیار ہوگئے تھے ، فرمایا: اگر تم (خدانخواستہ ) آگ میں داخل ہوجاتے تو قیامت تک آگ میں جلتے رہتے اور دوسرے گروہ (جنہوں نے آگ میں داخل ہونے سے انکار کیا تھا) کی تحسین فرمائی اور آپﷺ نے فرمایا: کسی ایسے امر میں جس سے خالق کی نافرمانی لازم آئے ، مخلوق (خواہ اس کا منصب کوئی بھی ہو) کی اطاعت لازم نہیں ہے ، اطاعتِ امیر صرف معروف میں ہے‘‘(صحیح مسلم:4761)۔
ہم تومسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنے دین سے ایسی جفا کررہے ہوتے ہیں کہ دشمن سن کر اور دیکھ کر عَش عَش کر اٹھے۔ علامہ اقبال نے دینِ اسلام کے ساتھ امتِ مسلمہ کی اس جفاکاری کی تصویرکشی ان اشعار میں کی ہے ؎
گلۂ جفائے وفا نما جو حرم کو اہلِ حرم سے ہے
کروں بتکدے میں اگر بیاں، تو کہے صنم بھی ہری ہری
یعنی اہلِ حرم اور دینِ اسلام کے نام لیوا وفا کا لیبل لگا کر جو جفا کررہے ہیں ، ستم ڈھا رہے ہیں ، خود کو اور اسلام کو بے آبرو کررہے ہیں ، اُن کے ان کرتوتوں کو دیکھ کر بت بھی زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں گے کہ اسلام کوجتنے زخم مسلمانوں نے لگائے ، اتنے زخم تومیرے پرستار کھلادشمن ہوتے ہوئے بھی ، نہیں لگاسکے۔ آج ہماری صورتِ حال اس شعر کی ہوبہو تصویر ہے ؎
کسے خبر تھی کہ ہاتھ میں لے کر چراغِ مصطفوی
زمانے بھر میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
اگر کسی نے اپنے رہنما کی غیر مشروط وفاداری کا حلف اٹھایاہو اور اُس کی طرف سے ایسا حکم آجائے کہ جس پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی لازم آتی ہو ،تو اُس پرلازم ہے کہ اس حلف کو فوراً توڑ دے اوروہ کام کرے جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول مکرمﷺ کی رضا کے مطابق ہے ۔ ارشادِ نبوی ہے : ''جس نے کسی بات کی قسم کھائی ، پھر اُس پر آشکارا ہواکہ (شریعت کی نظر میں) اُس پر عمل نہ کرنے میں خیر ہے ،تو اس پر لازم ہے کہ اپنی قسم کا کفارہ اداکرے اوروہ کام کرے جو (شریعت کی رُو سے) خیر ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ :2111)۔ اگر وہ کام حرام ہے تو اس کے کرنے کے بارے میں جوقسم کھائی ہے ،اس کا توڑنا فرض ہے اور اگروہ کام مکروہ تحریمی ہے ،تو اُس قسم کا توڑنا واجب ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں