"OMC" (space) message & send to 7575

مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں

اللہ نے جن قوموں پر عذاب نازل کیا ان میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی منطق نرالی تھی۔ یہ قوم سرمایہ دارانہ جمہوریت کی بہترین مثال تھی۔ اس قوم نے دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت سے اس بات کا فیصلہ کیا تھا کہ کم تولنا یا ناپ تول میں کمی بیشی کرنا جائز ہے۔آج کے دور کے دانشور اور میڈیا کے کارپرداز حضرت شعیبؑ کے دور میں موجود ہوتے تو وہ یقینا اس کا کوئی نہ کوئی قومی جواز ڈھونڈ نکالتے اور کچھ نہ بن پڑتا تو ایسا کرنے کو ایک قوم کا ’’جمہوری حق‘‘ ضرور ثابت کرتے اور ا گر کہیں اس قوم میں قدیم یونان کی طرح انتخابات کا رواج بھی ہوتا تو یہ لوگ حضرت شعیبؑ اور ان کے ساتھیوں کو صبر کا مشورہ دیتے اور کہتے انتظار کرو اُس وقت کا جب یہ قوم آپ کو مینڈیٹ دے دے گی تو آپ کم تولنا بند کروا دینا۔ ایسے فیصلے تو کثرت رائے سے کئے جاتے ہیں۔ کسی فرد یا مٹھی بھر لوگوں کو کوئی حق حاصل نہیں کہ پوری قوم کو جو کم تولنے پر متفق ہو چکی ہے، یرغمال بنا لے۔ تمہاری تو کل تعداد سترہ سو کے قریب ہے۔ یہ مٹھی بھر لوگ ایک جانب اور پوری قوم کی واضح اکثریت دوسری جانب ۔ ا یسا کیوں تھا اور لوگوں کی اکثریت کیوں حضرت شعیبؑ کے مقابل آکر کھڑی ہو گئی تھی۔ قرآن پاک کی سورۂ ہود کی آیت نمبر87اس بنیادی مکالمے کا ذکر کرتی ہے جو اس سارے فتنے کی جڑ تھا۔ ’’انہوں نے کہا اے شعیبؑ کیا تیری نماز تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم چھوڑ دیں پوجنا ان کو جنہیں ہمارے آبائو اجداد پوجا کرتے تھے اور ہم اپنے مال کو اپنی مرضی سے خرچ بھی نہ کر سکیں۔ بس تم ہی رہ گئے ہو بردبار اور نیک چلن آدمی‘‘۔اس آیت میں جو اصول بتایا گیا ہے وہ سرمایہ دارانہ معاشرت اور اسلام کی معیشت و سیاست کے درمیان فرق واضح کرتا ہے’’ ہم اپنے مال کو اپنی مرضی سے خرچ بھی نہ کر سکیں‘‘۔ یہ ہے وہ نقطہ جس پر موجودہ دور کے سودی سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔ اسلام اس کے بالکل مختلف یہ تصور دیتا ہے کہ یہ تمام دولت جو تم کماتے ہو، دراصل اللہ کی عطا ہے۔ یہ دولت کبھی تمہاری محنت کے صلے میں مل جاتی ہے اور کبھی کسی اور وسیلے سے میسر آ جاتی ہے لیکن ساری کی ساری اس دولت کی ملکیت اللہ کی ہے اور تم ایک امانت دار ہو۔ اس لیے مالک جس طرح چاہے اُسے اس کی مرضی اور منشاء کے مطابق خرچ کرو جس قدر وہ تمہیں، تمہاری اولاد اور تمہارے زیر دستوں کے لیے خرچنے کی اجازت دے بس اتنی ہی خرچ کرو اور باقی دولت جن جن جگہوں پر خرچ کرنے کے لیے حکم دیا ہے ان پر خرچ کرو۔ یہ ایک امانت ہے، تم اللہ کی دی ہوئی اس دولت کو اگر ویسے خرچ نہیں کرو گے تو اس امانت میں خیانت کرو گے۔ اسی طرح اللہ نے زمین کو بھی اپنی ملکیت قرار دیا ’’الارضُ لللّٰہ‘‘ اور اس پر اسی کا حق تسلیم کیا جو اس پر محنت کر کے فصل اگاتا ہے۔ یہی وہ تصور ملکیت تھا کہ سیّدنا عمرؓ نے ایسی زمینیں ان لوگوں سے واپس لے لی تھیں جو تین سال سے زیادہ عرصے تک اسے کاشت نہیں کر رہے تھے اور فرمایا تھا کہ یہ اصول مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا کہ جو شحض زمین کو تین سال تک کاشت نہ کرے، اس سے واپس لے کر کسی دوسرے مسلمان بھائی کو دے دی جائے تا کہ وہ اس سے بہرہ مند ہو سکے۔ قرآن کے اس آئین جہانداری اور جہا نبانی کو اقبال نے اپنی نظم ’’ ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کے ان دواشعار میں کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ؎ کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین اللہ کی اس امانت کی تقسیم کو قرآن بار بار واضح کرتا ہے اور تفصیل سے، کھول کھول کر بتاتا ہے کہ یہ دولت جو تمہیں عطا کی گئی اس پر کس کس کا حق ہے، کہاں کہاں خرچ کرنی ہے اور سورۂ النحل کی71ویں آیت میں تو اس دولت میں سب کو برابر کا حق دار قرار دے دیا ہے ’’ اور اللہ نے بعض لوگوں کو دوسروں پر روزی میں برتری دی مگر جن پر اللہ کا زیادہ فضل ہے وہ ان لوگوں کی جانب جو ان کے زیردست ہیں مال نہیں لوٹاتے، حالانکہ اللہ کے بنائے ہوئے (اصول کے مطابق) سب انسانوں کا(اللہ کے دیئے ہوئے اس مال میں) برابر کا حق ہے۔ اب کیا وہ لوگ ا للہ کی نعمتوں کے منکر نہیں ہو رہے‘‘ یہ ہے وہ تصور جسے آج کے دور کے معیشت دان دولت کی منصفانہ تقسیم یعنی(Redistributive justice) کا نام دیتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کی کئی سو سال کی محنت اور تحقیقی مقالوں کے باوجود یہ تقسیم وجود میں نہ آسکی اور دنیا دن بدن انسانوں کے لیے بدترین اور عذاب دہ ٹھکانہ بنتی گئی۔ اس لئے کہ جب آپ کسی شخص کو دولت کا مالک اور خود مختاربنا دیتے ہیں تو پھر اسے وہ تمام حقوق بھی دیتے ہیں کہ وہ چاہے تو اس پر سانپ بن کر بیٹھے یا اسے پانی کی طرح عیاشی پر بہا دے۔ اسی حق ملکیت اور اپنے مال کو اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے تصور نے ہی اس دنیا میں ایک فیصد ایسے لوگ پیدا کر دیئے ہیں جن کے پاس دنیا کی چالیس فیصد دولت ہے۔ یہ تحقیق ایک عالمی ادارے ’’ورلڈ انسٹیٹیوٹ فار ڈیویلپمنٹ اکنامکس ریسرچ نے کی ہے جو یونائیڈنیشن یونیورسٹی کا ادارہ ہے۔ اس تحقیق کے مطابق دنیا کے تین امیر ترین افراد کی دولت دنیا کے 48ممالک سے بھی زیادہ ہے۔اس دنیا کے دس فیصد امیر افراد دنیا کی85فیصد دولت کے مالک ہیں۔ جبکہ اس پوری دنیا کی آدھی آبادی کو اس دنیا کی دولت کا صرف ایک فیصد میسر ہے۔ کیا یہ دولت انہیں چھپڑ پھاڑ کر میسر آئی ہے۔ دولت کی اسی ملکیت کے تصور نے اس دنیا کے ساتھ وہ ظلم کیا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی ۔ یورپ کے صنعتی انقلاب میں جس طرح معصوم بچوں کو زبردستی کام پر مجبور کیا جاتا رہا اور وہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے فیکٹریوں کے پٹوں کے ساتھ ڈیوٹی دیتے اور کئی ایک نیند کے جھونکوں میں اس پر گر کر جان دیتے رہے۔ اس دور سے لے کر آج تک اس کارپوریٹ کلچر نے جس طرح اس پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑے ہیں، جہاں کم قیمت پر مزدور ملے وہاں سرمایہ اور فیکٹریاں لے گئے۔ سرمائے کے بل بوتے پر ساری کی ساری اجناس خریدی گئیں ، بڑے بڑے سٹور قائم کیئے، ایک جانب تو عام آدمی کا کاروبار چھینا اور دوسری جانب قابل فروخت فصلوں(Cash crop) کے نام پر پورے افریقہ میں ایسی فصلیں لگوائی گئیں جو ان کی فیکٹریوں کے مال میں کام آتی تھیں،ان کے بدلے انہیں کاغذ کے نوٹوں کی بوریاں بھر کر دی گئیں اور جب وہ بھوک سے بلبلائے تو انہیں نوٹوں کو واپس لے کر غلہ دیا گیا۔ پوری دنیا میں سودی بینکاری اور کاغذ کے نوٹوں کے ذریعے ایک ایسا جال بُنا گیا کہ پوری کی پوری قوم کی محنت اور فصل کو سود کے چکر میں گروی رکھ لیا گیا ۔ اس پورے نظام کے تحفظ اور اس لوٹی ہوئی دولت کے دفاع اور اس حق ملکیت کی پاسداری کے لیے دو شاندار ہتھیار تیار کئے گئے۔ ایک جمہوریت اور وہ بھی ایسی جس میں پارٹی سسٹم ہو، تاکہ یہ سرمایہ دار اپنی اس دولت کا تھوڑا سا حصہ پارٹیوں کو دے کر انہیں اپنے مفاد کے لئے خرید لیں اور دوسرا میڈیا۔ اسی لیے آج تک کسی کو اسی بات کا علم نہیں ہوسکا کہ یہ الیکشنوں پر اربوں روپے کہاں سے خرچ ہوتے ہیں اور یہ میڈیا پر دولت کی بارش کس جانب سے ہو رہی ہے۔ اپنی مرضی سے اپنی دولت کو خرچ کرنے سے یہ دنیا جس طرح جہنم بنتی ہے اسے اکیسویں صدی کے انسان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ وہ سوال جو حضرت شعیبؑ کی قوم نے کیا تھا کہ ’’کیا ہم اپنے مال کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ بھی نہیں کر سکتے‘‘ اور ان پر عذاب مسلط ہو گیا تھا۔ ہم نے تو اس سوال کو اصول ہی بنا لیا ہے۔ کیا ہمیں بھی کسی عذاب کا انتظار ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں