نئے صوبے لسانی نہیں انتظامی بنیادوں پر بننے چاہئیں
علیحدہ ملک کی بات خانہ جنگی کا سبب تو بن سکتی ہے،مسائل کا حل نہیں
اسلام آباد (تجزیہ: محمود حسین) کیا اردو بولنے والوں کیلئے علیحدہ صوبے کا قیام ممکن ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ان دنوں سنجیدہ قومی حلقوں میں زیربحث ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ یاد رہے اردو بولنے والے صرف کراچی میں ہی نہیں رہتے۔ حیدرآباد، سکھر، خیرپور، میرپور خاص اور قریباً اندرون سندھ کے ہر شہر میں موجود ہیں بلکہ بعض شہروں میں تو اکثریت میں ہیں۔اگر لسانی بنیاد پر صوبے کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا تو ان اردو بولنے والوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ قیام پاکستان کے وقت ہندو اکثریتی علاقوں سے مسلمانوں کو اس لئے ہجرت کرنا پڑی تھی کہ ہندوؤں کی دلیل یہ تھی کہ تمہارا پاکستان بن گیا اب تمہارا یہاں کیا کام جاؤ اپنے پاکستان میں رہو۔ اپنا مکان، دکان سب کچھ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ منتقل ہونا انتہائی سخت تکالیف کا باعث ہوتا ہے اور ہجرت کے اثرات صرف ایک نسل نہیں کئی نسلوں تک جاری رہتے ہیں۔پھر اسلام کے نام پر گھر بار چھوڑنے والے تو آخرت میں اجر کی امید لگا سکتے ہیں، زبان کی بنیاد پر دکھ جھیلنے والے تو اس کی بھی امید نہیں رکھ سکتے۔دوسری جانب خود کراچی میں اردو بولنے والوں کے ساتھ ساتھ بہت بڑی تعداد میں پشتو، پنجابی، سندھی، بلوچی اور دیگر زبانیں بولنے والے بھی رہتے ہیں۔ کیا وہ ’’اردو بولنے والوں کیلئے علیحدہ صوبے‘‘ کے نعرے کی حمایت کریں گے؟ اگر نہیں تو پھر کراچی کا مستقبل کیا ہو گا، مستقل فتنہ و فساد یا یہاں سے بھی نقل مکانی۔جہاں تک علیحدہ ملک کی بات ہے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان زمینی طور پر ایک دوسرے سے ملے ہوئے نہیں تھے، درمیان میں ایک دشمن ملک آتا تھا۔ اس کے علاوہ مشرقی پاکستان میں ایک ہی زبان بولنے والوں کی غالب اکثریت تھی۔ کراچی میں یہ دونوں صورتیں نہیں ہیں لہٰذا علیحدہ ملک کی بات طویل خانہ جنگی کا سبب تو بن سکتی ہے لیکن نہ یہ مقصد حاصل ہو سکتا ہے اور نہ علیحدہ ملک سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ملک کا انتظام بہتر طور پر چلانے اور عوام کی سہولت کیلئے چاروں صوبوں میں نئے صوبے تشکیل دیے جانے چاہئیں لیکن لسانی بنیاد پر نہیں۔ انتظامی بنیادوں پر، اور یہ عمل پورے ملک میں ایک ساتھ ہونا چاہیے تاکہ کسی صوبے سے جذباتی لگاؤ رکھنے والوں کو یہ احساس نہ ہو کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اور جب یہ عمل شروع کیا جائے تو ذرائع ابلاغ پر بڑے پیمانے پر ایک مہم چلانی چاہیے کہ زمین، دریا، پہاڑ اہم ہوتے ہیں لیکن ان سے بھی زیادہ اہم انسان ہوتے ہیں۔ موجودہ صوبے بھی عوام کی سہولت کیلئے قائم کیے گئے تھے، اب اگر لوگوں کی آسانی کیلئے ان کی تشکیل نو ضروری ہے تو اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے، خصوصاً ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں ایک ایک صوبے کو کئی کئی صوبوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ اگر حکومت اور اس ملک کے مفکرین درجہ بالا تجاویز پر عمل کریں تو ووٹوں کے حصول کیلئے تعصب پھیلانے والوں خصوصاً انتخابات قریب آنے پر زبان، رنگ، نسل، علاقے، فرقے کے نعرے لگانے والوں کو پذیرائی نہیں مل سکے گی اس طرح وسیع القلب اور کھلے ذہن کے لوگ منتخب ہوسکیں گے۔