مسئلہ کشمیر :ٹی ٹونٹی نہیں ٹیسٹ میچ کی تیاری کرنا ہوگی
خطہ میں ٹھہرائو آتا نظر نہیں آرہا، حکومتی نہیں قومی پالیسی تشکیل دینا ہوگی امریکہ کے پالیسی ساز مسئلہ کے حل کی بجائے اپنے علاقائی مفاد کیلئے سرگرم ہیں
مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت کے اقدام کے بعد پاکستان کی جانب سے آنے والا رد عمل اور خصوصاً اپنے یوم آزادی کو یوم یکجہتی کشمیر اور بھارتی یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا اقدام پاکستان کی مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کی تاریخ ساز جدوجہد سے واضح کمٹمنٹ کا ثبوت ہے لیکن خطہ میں رونما ہونے والے واقعات اور خصوصاً مقبوضہ کشمیر اور دنیا بھر میں رہنے والے کشمیریوں کے اندر پیدا شدہ رجحانات سے نظر آرہا ہے کہ فی الحال خطہ میں کوئی ٹھہراؤ آنے والا نہیں اور کنٹرول لائن سمیت دو طرفہ محاذ آرائی اور تناؤ کی کیفیت طاری رہے گی لہٰذا مذکورہ صورتحال کے پیش نظر بھارت کے جارحانہ رجحانات کے جواب میں پاکستان کی حکمت عملی کیا ہوگی۔ مذکورہ صورتحال کے حوالے سے عالمی دباؤ کیلئے کیا اقدامات بروئے کار لائے جائیں گے ۔ سفارتی محاذ کو کس طرح متحرک اور فعال رکھنا ہوگا اور خصوصاً پاکستان کے اندر کشمیر کاز اور بھارت کے جارحانہ عزائم کے خلاف قومی اتفاق رائے قائم رکھنے کیلئے کیا کرنا ہوگا، اس حوالے سے پاکستان کی کشمیر پر پالیسی بنیادی اہمیت کی حامل ہوگی۔ جس پر یکسوئی اور سنجیدگی سے عمل پیرا ہونا پڑے گا ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ ہندوستان کے سٹریٹیجک عزائم کیا ہیں اور کشمیر کے حوالے سے ان کی حکمت عملی کیا ہے اور دنیا کی اہم طاقتیں خصوصاً امریکہ جو خطہ میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہے گا اس کے اہداف کیا ہیں؟ ہندوستان بارے کوئی دو آرا نہیں کہ وہ علاقائی سپر پاور بننے کے مشن پر کاربند ہے اور کشمیر کے حوالے سے اس کی طے شدہ حکمت عملی ہے کہ اس نے طاقت کے ذریعے اسے قابو میں رکھنا ہے ۔پاکستان کو مستقل بنیادوں پر ایسا طرز عمل اور لائحہ عمل اختیار کرنا ہے جس کے نتیجہ میں بھارت کے غیر قانونی اقدام کے خلاف عالمی رائے عامہ کو متحرک رکھا جائے اور پاکستان کے خلاف بھارت کے مذموم عزائم کے توڑ کیلئے ممکنہ اقدامات کے حوالے سے الرٹ رہا جائے ۔ پاکستان کو ہر قیمت پر اپنے اصولی مؤقف پر کاربند رہتے ہوئے کشمیر تنازع کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر قائم رہنا چاہئے ۔ یہی کشمیر کاز پر ہماری اصل طاقت ہے ۔ کشمیر کی تحریک مزاحمت آج جس مقام پر پہنچ چکی ہے ، کشمیر کا ہندوستان سے وابستہ رہنا نا ممکن نظر آ رہا ہے ۔امریکہ جس نے ماضی میں مذکورہ ایشو سے صرف نظر برتتے ہوئے اپنے مفادات کے تابع اپنا وزن ہندوستان کے پلڑے میں ڈالے رکھا۔ اب نئے حالات میں اپنے مفادات کے تابع وہ افغانستان کے تناظر میں مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا خواہاں ہے ،امریکہ کے پالیسی ساز مسئلہ کشمیر کے حل کے بجائے اپنے علاقائی مفاد کیلئے سرگرم ہیں ۔ امریکہ کی علاقہ میں ترجیحات کو دیکھا جائے تو وہ علاقہ میں اپنے سٹریٹیجک اتحادی بھارت کی بالادستی کا خواہاں ہے ۔ پاکستان کو اس امر کا ادراک رکھنا چاہئے کہ دوست وہی ہے جو مشکل میں کام آئے اور مشکل صورتحال میں وہی ساتھ کھڑا ہوتا ہے جس کے ساتھ مفادات مشترکہ ہوں۔ لہٰذا چین کا پاکستان کے ساتھ کھڑے رہنا علاقائی مفادات کے حوالے سے اہم ہے لہٰذا ہمیں اپنی حکمت عملی کے طور پر اس امر پر کاربند رہنا ہوگا کہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے ۔ پاکستان کی اس مسئلہ کے بنیادی فریق اور وکیل کے طور پر ذمہ داری ہے کہ اس مسئلہ کو ہر میدان اور ہر پلیٹ فارم پر اٹھائے اور اپنے مؤقف کو پوری جرأت اور دانشمندی سے پیش کرے ۔حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ کشمیر پر صرف حکومتی پالیسی کافی نہیں بلکہ کشمیر پر قومی پالیسی کا تعین ہو۔ عالم اسلام کے کردار نے ہمیں پریشان کیا کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ عالم اسلام کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے اس میں قائدانہ کردار ادا کیا مگر آج جب کشمیر جیسے ایشو پر عالم اسلام کی ضرورت پڑی تو عالم اسلام خاموش تماشائی بنا کھڑا نظر آیا۔ لہٰذا عالم اسلام میں کشمیر کی حمایت کیلئے بھرپور مہم کی ضرورت ہے ۔ دوسری جانب حکومت کو امریکہ کو بھی باور کرانا چاہئے کہ افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار 5 اگست کے بھارتی اقدام سے متاثر ہو سکتا ہے کیونکہ ہمیں اپنی افواج اپنے مشرقی بارڈر پر بھارت جیسے دشمن کے عزائم سے نمٹنے کیلئے تعینات کرنی ہیں اور اگر امریکہ اس حوالے سے کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرتا اور بھارت کے عزائم کے آگے بند نہیں باندھتا تو پاکستان افغانستان کے محاذ پر اس سپرٹ سے ڈلیور نہیں کر پائے گا جس پر وہ 4 اگست تک گامزن تھا ۔ پاکستان کا سلامتی کونسل سے رجوع اچھا اقدام ہے لیکن ہمیں اس سے زیادہ توقعات قائم کرنے کی بجائے اپنا ایک جوابی بیانیہ تیار کر کے دنیا سے مسلسل رابطے میں رہنا ہے اور دنیا کے ہر پلیٹ فارم کو استعمال کرنا ہوگا ۔ دنیا کو بتانا ہوگا کہ اگر سوڈان، مشرقی تیمور ، اریٹیریا، نیمبیا کے ایشو پر استصواب رائے ہو سکتا ہے تو کشمیر پر کیوں نہیں؟ لہٰذا ہمیں اب ٹی ٹونٹی کی بجائے ایک ٹیسٹ میچ کی تیاری کرنی چاہئے ۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں نیوکلیئر طاقت ہیں، دنیا نے انہیں پابند نہ کیا اور کشمیر کے مسئلہ کے پر امن حل پر پیش رفت نہ ہوئی تو صورتحال تشویشناک ہو سکتی ہے اور دنیا اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے گی۔