اسلام آباد ہائیکورٹ:ڈپٹی رجسٹرار کو بغیر قانونی جواز کیس سنگل سے ڈویژن بینچ ٹرانسفر نہ کرنے کا حکم

اسلام آباد ہائیکورٹ:ڈپٹی رجسٹرار کو بغیر قانونی جواز کیس سنگل سے ڈویژن بینچ ٹرانسفر  نہ کرنے کا حکم

اسلام آباد(اپنے نامہ نگار سے )اسلام آباد ہائیکورٹ میں بینچز تبدیلی تنازع مزید شدید ہو گیا، ایک اور فیصلہ جاری کردیاگیا، جس میں ڈویژن بینچ کی جانب سے قائم مقام چیف جسٹس کے بینچ تبدیلی اختیارات پر مزید سوالات کھڑے کر دیئے گئے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

 عدالت نے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو آئندہ بغیر قانونی جواز کیس سنگل بینچ سے ڈویژن بینچ ٹرانسفر کرنے سے روکتے ہوئے حکم دیاہے کہ ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل آئندہ ٹرانسفر یا مارکنگ کرتے ہوئے عدالتی گائیڈ لائنز مدنظر رکھیں، قائم مقام چیف جسٹس کی ہدایت پر ڈویژن بینچ میں مقرر کردہ کیسز دوبارہ واپس مختلف بنچز میں بھیجے جائیں۔جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق پرمشتمل ڈویژن بینچ کی جانب سے جاری 11صفحات کے فیصلہ میں ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو حکم دیاگیاکہ جب تک فل کورٹ ہائیکورٹ رولز پر مزید رائے نہ دے انہی گائیڈ لائنز پر عمل کریں،ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈرز کے مطابق ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل تمام کیسز متعلقہ بینچ میں بھیج دے ،ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کیس سنگل بینچ سے ڈویژن بینچ بھیجنے کا اختیار بغیر قانونی جواز استعمال نہ کریں،قانون کی تشریح ہو ، ایک ہی طرح کے کیسز ہوں جو قانونی جواز دیں پھر ہی اختیار استعمال ہو سکتا ہے ، کیسز فکس کرنے یا مارک کرنے کا اختیار کس کا ہے ؟،ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈرز کے مطابق سنگل یا ڈویژن بینچز کیسز فکس کرنے کا اختیار ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کا ہے ،رولز اینڈ آرڈرز کے مطابق چیف جسٹس کا اختیار روسٹر کی منظوری کا ہے ،رولز واضح ہیں، کیسز مارکنگ اور فکس کرنا ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کا اختیار ہے ،ڈپٹی رجسٹرار کو کیس واپس لینے یا کسی اور بینچ کے سامنے مقرر کرنے کا اختیار نہیں،عدالتی حکم نامے کے مطابق آصف زرداری کیس میں طے ہو چکا جج نے خود طے کرنا ہے کیس سنے گا یا نہیں، اس کیس میں نہ تو جج نے معذرت کی اور نہ ہی جانبداری کا کیس ہے ۔

انتظامی سائیڈ پر قائم مقام چیف جسٹس کو مناسب انداز میں آفس نے معاونت نہیں کی۔ جس کی وجہ سے اس عجیب situation نے اس عدالت کو embarrassing صورتحال میں ڈالا ہے ،آئندہ ایسی صورت حال سے بچنے کیلئے پی سی اور ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈرز سے رہنمائی لی جائے ۔چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کے حوالے رولز واضح ہیں کہ یہ اختیار انتظامی کمیٹی کا ہے ،کیسز فکس کرنا جوڈیشل بزنس ہے اس کو انتظامی اختیارات کے برابر نہیں دیکھ سکتے ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے بینچز کسی اور جگہ نہیں اس لیے لاہور ہائیکورٹ مختلف سیٹس والا اختیار یہاں استعمال نہیں ہو سکتا، ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اگر سمجھے کیس کسی اور بینچ میں جانا چاہیے تو کسی عجیب صورت حال سے بچنے کیلئے جج کے ریڈر سے رابطہ کرے ،جو جج بینچ میں سینئر ہو ٹرانسفر ہونے والا کیس اس کے سامنے رکھا جائے ،ایک بینچ نے لکھا ٹیکس اور کچھ اور کیسز ان کے سامنے مقرر نہ کئے جائیں ، قائم مقام چیف جسٹس نے یہ تمام کیسز ڈویژن بینچ ٹو میں ٹرانسفر کر دیئے ،کوئی لسٹ نہیں جس سے معلوم ہو اس نوعیت کا کوئی کیس ہمارے سامنے پہلے زیر التوا ہے ،جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے بینچ میں 16 تاریخوں سے ایک کیس زیر التوا ہے ،جس سے معلوم ہوتا ہے اس کیس کی کافی کارروائی سنگل بینچ میں ہو چکی،قائم مقام چیف جسٹس کے انتظامی آرڈر میں نہ کوئی وجہ نہ ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈرز کا کوئی حوالہ ہے ،جس سے معلوم ہو کہ وہ کس قانون کے تحت سنگل بینچ کے کیس کو ڈویژن بینچ بھیج رہے ہیں، ٹیریان کیس میں لارجر بینچ طے کر چکا چیف جسٹس بینچ تشکیل دے سکتا ہے لیکن دوبارہ تشکیل یا ترمیم نہیں کر سکتا،صرف اسی صورت میں بینچ دوبارہ تشکیل ہو سکتا ہے جب بینچ معذرت کرے یا وجوہات کے ساتھ دوبارہ تشکیل کا کہے ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں