اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ججز کو نوٹسز جاری، کام سے روکنے اور سنیارٹی فہرست معطل کرنیکی استدعا مسترد

اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ججز کو نوٹسز جاری، کام سے روکنے اور سنیارٹی فہرست معطل کرنیکی استدعا مسترد

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ججوں کو کام سے روکنے اور سنیارٹی فہرست معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی اور قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم سومرو، جسٹس محمد آصف، اٹارنی جنرل پاکستان اور جوڈیشل کمیشن کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت 17اپریل تک ملتوی کردی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس صلاح الدین اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا اس معاملے پر ہمارے سامنے 7درخواستیں آئی ہیں، سنیارٹی کیس میں پانچ جج بھی ہمارے سامنے درخواست لائے ، کیوں نہ ہم ججز کی درخواست کو ہی پہلے سنیں، رولز کے مطابق بھی سینئر وکیل کو پہلے سننا چاہیے ۔جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل شروع کیے اور مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر ہونے والے ججز کے معاملے کو عدلیہ کی آزادی کے آرٹیکل 175 کے ساتھ دیکھنا چاہیے ، ججز ٹرانسفر، فیڈرل ازم اور انتظامی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق دلائل دونگا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ججز ٹرانسفر آرٹیکل 200 کے تحت ہوئی، بہتر ہے دلائل کا آغاز بھی یہی سے کریں، ہم ججز کو سول سرونٹ کے طور پر تو نہیں دیکھ سکتے ۔منیر اے ملک نے کہا اصغر اعوان کیس میں سنیارٹی کے اصول کو سول سرونٹ کے طور اجاگر کیا گیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ایک جج کا ٹرانسفر چار درجات پر رضامندی کے اظہار کے بعد ہوتا ہے ، جس جج نے ٹرانسفر ہونا ہوتا ہے اس کی رضامندی، جس ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہونا ہوتی ہے اس کے چیف جسٹس سے رضامندی معلوم کی جاتی ہے ، پھر جس ہائی کورٹ میں آنا ہوتا ہے اس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی لی جاتی ہے ، آخر میں چیف جسٹس پاکستان کی رضامندی کے بعد صدر مملکت ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے ۔ آپ کو اعتراض ٹرانسفر پر ہے یا سینارٹی پر، منیر اے ملک نے کہا ہمارا اعتراض دونوں پر ہے ۔ جج کا ٹرانسفر عارضی طور پر ہو سکتا ہے ، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ایسا کہیں ذکر نہیں ہے ، صدر مملکت نے نوٹیفکیشن میں اضافی مراعات کا بھی کہیں ذکر نہیں کیا، یہاں عدم توازن مراعات کا معاملہ نہیں ہے ، وہ الفاظ جو آئین کا حصہ نہیں ہیں وہ عدالتی فیصلے کے ذریعے آئین میں شامل نہیں کر سکتے ، آپ ہم سے نئے الفاظ آئین میں شامل کروانے کی بات کر رہے ہیں، آرٹیکل 62 ون ایف نااہلی کیس میں آئین میں نئے الفاظ شامل کیے گئے ، آئین میں نئے الفاظ شامل کرتے ہوئے نااہلی تاحیات کر دی گئی، اس فیصلے پر شدید تنقید ہوئی جسے نظرثانی میں تبدیل کیا گیا،منیر اے ملک نے کہا میں آئین میں نئے الفاظ شامل کرنے کی بات نہیں کر رہا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام ایکٹ کے ذریعے ہوا ہے ، کیا ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کا سکوپ موجود ہے ؟منیر اے ملک نے کہا ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کی گنجائش نہیں ہے ، ایکٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں صرف نئے ججز کی تعیناتی کا ذکر ہے ۔جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ جب ججز کی اسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفر کے بجائے انہی صوبوں سے نئے جج کیوں تعینات نہ کئے گئے ؟ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟منیر اے ملک نے کہا حلف کے ڈرافٹ میں صوبے کا ذکر ہوتا ہے ، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حلف اٹھاتے ‘‘اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری’’ کا ذکر آتا ہے ۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا سنیارٹی ہماری اس حلف سے گنی جاتی ہے جو ہم نے بطور عارضی جج لیا ہوتا ہے دیکھنا یہ ہے اگر دوبارہ حلف ہو بھی تو کیا سنیارٹی سابقہ حلف سے نہیں چلے گی؟ نئے حلف سے سنیارٹی گنی جائے تو تبادلے سے پہلے والی سروس تو صفر ہوجائے گی۔

منیر اے ملک نے کہا اسی لئے آئین میں کہا گیا ہے جج کو اس کی مرضی لیکر ہی ٹرانسفر کیا جائے ۔اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے ٹرانسفر ہونے والے ججز کو کام کرنے سے روکنے ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی نئی سینارٹی لسٹ معطل کرنے کی استدعا مستردکردی اورہائی کورٹ کے 3 ججز قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم سومرو اور جسٹس محمد آصف،اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان،جوڈیشل کمیشن پاکستان،اسلام آباد اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز،اور چاروں ہائی کورٹس کے رجسٹرار آفسز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 17اپریل تک ملتوی کردی۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا جوڈیشل کمیشن الگ سے وکیل کرنا چاہیے تو کر سکتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس کب ہے ، منیر اے ملک نے کہا جوڈیشل کمیشن اجلاس 18 اپریل کو بلایا گیا ہے ، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ٹھیک ہے ہم کیس 17 اپریل کو سنیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں