چیف جسٹس کا ون مین شو ، نظر ثانی ضروری : الیکشن پر ازخود نوٹس چار تین کی اکثریت سے مسترد ہوا: سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی فیصلہ جاری

چیف جسٹس کا ون مین شو ، نظر ثانی ضروری : الیکشن پر ازخود نوٹس چار تین کی اکثریت سے مسترد ہوا: سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی فیصلہ جاری

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ کے جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس میں 28صفحات پر مشتمل اختلافی فیصلہ جاری کر دیا۔

 جس میں دو ججوں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جما ل خان مندو خیل کے دستخط موجود ہیں جس میں دونو ں ججو ں نے قرار دیا ہے کہ وہ اپنے دیگر دو برادر ججوں جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے 22فروری کے فیصلے سے متفق ہیں اور موجودہ آئینی درخواست کو خارج کر تے ہیں جبکہ اس ضمن میں سو موٹو کارروائی کو ڈراپ کیا جاتا ہے ،ان دونو ں جج صاحبان نے قرار دیا کہ اس ضمن میں کیس کے حقائق و واقعات کے تنا ظر میں آئین کے آرٹیکل184/3کے تحت سومو ٹو کارروائی کو شروع کر نے کا کوئی جواز نہیں بنتا اس کارروائی کوکسی بھی جواز کے بغیر جلد با زی میں شروع کیا گیا، لاہور ہائی کورٹ اور پشا ور ہائی کورٹ میں پہلے ہی ایسی درخواستیں قابل سماعت تھیں جن میں الیکشن کے متعلق سوالات پر جائزہ لیا جا رہا تھا،لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے پہلے ہی درخواست گزار کے حق میں فیصلہ جاری کیا تھااور یہ فیصلہ آج بھی موجود ہے جس کے خلاف ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ میں اپیلیں دائر کی گئیں اور ان درخواست گزارو ں میں سے کسی نے بھی سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل185کے تحت اپیلیں دا ئر نہیں کیں۔

ہائی کورٹ میں ان درخواستو ں کی سماعت میں کوئی تا خیر نہیں ہوئی تھی جبکہ موجودہ کارروائی نے ہائی کورٹ میں بلا جواز تا خیر کی،اس لیے ہائی کورٹ کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ تین دنو ں میں ان اپیلو ں پر فیصلہ سنا ئے ،فا ضل جج نے لکھا کہ بہتر ہے کہ اس طرح کے معاملات پارلیمنٹ میں حل کئے جائیں ،فا ضل جج نے مزید لکھا کہ ا گر ایک دفعہ کسی جج کو بینچ میں شا مل کر لیا جائے اور کیس اس کو اسائن کر دیا جائے تو اس کو اس وقت تک بینچ سے نہیں نکالا جا سکتا جب تک کہ وہ جج خود کیس سننے سے معذرت نہ کر لے یا پھر بعض غیر متوقع وجوہات کی بنا پر بینچ میں نہ بیٹھ سکے ،اگر کوئی جج شروع میں ہی اپنا حتمی فیصلہ دے دیتا ہے اور بعد کی کارروائی میں وہ نہ سن سکے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس جج نے کیس کو سننے سے معذرت کی ہے اور نہ ہی یہ اس جج کے بینچ سے اخراج کا جواز ہے ۔اس کیس میں دو ججو ں نے اپنا فیصلہ سنایا اور اس کے بعد انہو ں نے بینچ میں رکھنے یا نہ رکھنے کا آپشن چیف جسٹس کی صوابدید پر چھو ڑ دیا،چیف جسٹس کی جانب سے اس آپشن کا استعمال دو ججو ں کے عدالتی فیصلہ پر کوئی اثر نہیں رکھتا،چیف جسٹس کی جانب سے نئے بینچ کی تشکیل صرف ایک انتظامی معاملہ تھا اور اس میں با قی پانچ ججوں نے کیس کی سماعت کر نا تھی ، اس طرح ان دو ججو ں کے عدالتی فیصلے کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور ان دونو ں ججو ں کے عدالتی فیصلے کو تمام ججو ں کے حتمی فیصلے میں شا مل کیا جا تا ہے ۔یہاں یہ با ت ا ہم ہے کہ دو ججو ں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو بینچ سے ہٹایا نہیں گیا بلکہ انہو ں نے خود کیس کو سننے سے معذرت کی،دو ججو ں کے فیصلے کو شامل نہ کرنا ان کو بینچ سے ان کی مرضی کے بغیر نکالنے کے مترادف ہو گا جس کی قانون میں اجازت نہیں اور یہ چیف جسٹس کے اختیارات میں بھی نہیں۔

ہماری را ئے ہے کہ سوموٹو کارروائی کو ڈراپ کر نے اور درخواستو ں کو مسترد کر نے کا فیصلہ سات رکنی بینچ میں سے چار تین کی تنا سب سے دیا گیا،فا ضل جج نے ا س ضمن میں پاناما کیس کا حوالہ دیا ہے جس میں دو ججو ں نے پہلے اپنا فیصلہ سنایا جبکہ با قی تین ججو ں نے بعد میں کیس کو سنا اورپھر ان کو حتمی فیصلے میں شامل کیا گیا اور تمام ججوں نے نظرثانی درخواستو ں کی سماعت کی ۔فا ضل جج نے لکھا کہ ادارے کے استحکام اور عدالتو ں پر عوامی اعتماد کیلئے ضروری ہے کہ ہم ون مین شو کے اختیارات پر نظر ثانی کر یں جو چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس ہیں،عدالتیں کسی ایک تنہا شخص چیف جسٹس کے فیصلو ں کی محتاج نہیں ہو سکتیں،ان امور کی آرٹیکل191کے تحت تمام ججوں کی منظوری سے رولز کی بنیاد پر ایک سسٹم کے تحت انجام دہی ہو نی چا ہیے جن میں آرٹیکل184کے تحت سوموٹو کارروائی، ریگولر بینچ اور خصوصی بینچزکی تشکیل شامل ہے ۔خیال رہے کہ اس معاملے پر یکم مارچ کو چیف جسٹس آف پاکستان نے فیصلہ سناتے ہوئے صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات 90 دنوں میں کرانے جبکہ پنجاب میں صدر کی دی ہوئی تاریخ کو آئینی طور پر درست قرار دیتے ہوئے گورنر خیبر پختونخوا کو صوبے میں فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دینے کا بھی حکم دیا تھا۔ اس وقت جاری کیے گئے مختصر تحریری فیصلے کے آخر میں جہاں تمام ججز کے دستخط موجود ہیں وہاں ایک جج نے لکھا ہے کہ ‘میں نے الگ سے فیصلہ تحریر کیا ہے جبکہ دوسرے جج نے لکھا ہے کہ ‘میں نے اس فیصلے کے ساتھ الگ سے نوٹ لکھا ہے ۔چیف جسٹس نے عدالت میں دونوں معزز جج صاحبان کے اختلافی نوٹ بھی پڑھ کر سنائے اور کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھے ہیں۔ 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں