سپریم کورٹ :فیصل واوڈا،مصطفی کمال کو معافی ٹی وی چینلوں کو نوٹس

سپریم کورٹ :فیصل واوڈا،مصطفی کمال کو معافی ٹی وی چینلوں کو نوٹس

اسلام آباد(نمائندہ دنیا)سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سینیٹر فیصل واوڈا او رکن قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی قبول کر لی،جبکہ ٹی وی چینلزکوشوکازنوٹس جاری کردیئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے توہین عدالت کے الزام میں فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کو جاری شوکاز نوٹس واپس لے کر قراردیا کہ مرتکبین توہین عدالت اپنے عمل پر نادم ہیں،امید ہیں وہ آئندہ محتاط رہیں گے ،توہین آمیز پریس کانفرنس نشر کرنے والے 34 پرائیوٹ ٹی وی چینلز میں سے 26نے وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے اپنا جواب جمع کیا جس میں پریس کانفرنس نشر کرنے کا دفاع کیا گیا تھا،عدالت نے جواب پر عدم اطمنان کا اظہار کرتے ہوئے اسے غیر تسلی بخش قراردیا اور جواب جمع کرانے والے تمام ٹی وی چینلز کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتے میں وضاحت طلب کرلی کہ کیوں نہ توہین عدالت میں ان کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ عدالت نے حکم دیا کہ شوکازنوٹس کا تحریری جواب ٹی وی مالکان اور چینلز کے سربراہوں کے دستخط سے جمع کرایا جائے ۔عدالت نے فیصل ووڈا اور مصطفی کمال کی پریس کانفرنس سے پہلے اور بعد میں چلائے جانے والے اشتہارات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ ٹی وی چینلز بتائیں کہ فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنسز نشر کرنے سے کتنی آمدن ہوئی ۔

دوران سماعت مصطفی کمال کے وکیل فروغ نسیم نے بتایا کہ ان کے موکل نے غیر مشروط معافی مانگی اور پریس کانفرنس میں ندامت کا اظہار بھی کرچکا ہے ،فیصل واوڈا پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا آپ نے بھی معافی مانگی ہے ؟ ،جواب میں سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ جی میں نے غیر مشروط معافی نامہ جمع کرا دیا ہے ۔ چیف جسٹس نے فیصل واوڈا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے تو مذہبی سکالرز سے مشورہ کرنے کا بھی لکھا ہے ،و کیل فیصل صدیقی نے پیش ہوکر عدالت کے استفسار پر بتایا کہ میں 26 چینلز کی نمائندگی کررہاہوں اور تحریری جواب بھی جمع کرادیا ہے ،عدالت نے جواب پر وکیل کے دستخط پر اعتراض کیا اور آبزرویشن دی کہ ٹی وی چینلز کے جواب پر ٹی وی مالکان کے دستخط ہونے چاہیے تھے ۔وکیل موقف اختیار کیا کہ میڈیا اداروں کو شوکاز نوٹسز نہیں تھے ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ میڈیا اداروں کو شوکاز کروانا چاہتے ہیں؟ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کم از کم میڈیا اداروں کے کسی ذمہ دار افسر کا دستخط شدہ جواب جمع ہونا چاہیے تھا۔چیف جسٹس نے کہا میڈیا ہائوسزنے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا، جس کے جواب میں وکیل نے کہاتمام چینلز کے نمائندگان عدالت میں موجود ہیں،چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کو آئین پسند نہیں؟ میں سمجھا آپ آئین سے بات کا آغاز کریں گے ، کوئی کسی کو چور ڈاکو کہے اور میڈیا کہے ہم نے صرف رپورٹنگ کی ہے کیا یہ درست ہے ؟ کیا ایسے آزاد میڈیا کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں؟ آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے دو الگ الگ چیزیں ہیں۔فیصل صدیقی نے کہا فریڈم آف پریس کی وضاحت دو سو سال سے کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا دو سال سے کیوں، 1400 سال سے کیوں شروع نہیں کرتے ، آپ کو 1400 سال پسند نہیں؟ 200 سال کا ذکر اس لیے کر رہے ہیں کہ تب امریکا آزاد ہوا؟۔ فیصل صدیقی نے کہا میں 200 سال کی بات اس لیے کر رہا ہوں کہ ماڈرن آئین کی ابتدا تب ہوئی۔چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو آئین کا دیباچہ پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہمارے آئین کا بسم اللہ الرحمن الرحیم سے آغاز ہو رہا ہے ، اس میں ماڈرن ایج کا ذکر کہاں ہے ؟ ،عدالت کے استفسار پر ٹی وی مالکان کے وکیل نے تسلیم کیا کہ ایک پریس کانفرنس بادی النظر میں توہین عدالت ہوئی ۔ چیف جسٹس نے کہا بطور ٹی وی چینلز ان کی گفتگو پھیلائی، آپ ان پر توہین کی تہمت اب لگا رہے ہیں اور خود کہتے ہیں کچھ نہیں کیا، باہر کے ممالک میں تو پریس کانفرنس لائیو نہیں دکھائی جاتی، وہاں پریس کانفرنس سن لی جاتی ہے پھر کچھ چیزیں کاٹ لیتے ہیں، اب آپ امریکا کی مثال نہیں دیں گے ، آپ نے خود مان لیا توہین ہوئی ہے پھر آپ کو نوٹس کر دیتے ہیں، یہ تو اب آپ کے اعتراف پر توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔فیصل صدیقی نے کہا مجھے آپ پر پورا اعتبار ہے آپ جو بھی فیصلہ کریں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ ہمیں سرٹیفکیٹ نہ دیں، کیا یہ آئینی دلیل ہے کہ آپ پر پورا اعتبار ہے ؟۔ فیصل صدیقی نے کہا عدالت چاہتی ہے کہ چینلز کے دستخط سے جواب دیں تو دے دوں گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہمارے ساتھ گیمز کھیلیں گے تو آپ کو موقع نہیں دیں گے ، ہم بھی پھر آپ کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے ،ٹی وی چینلز کے جواب پر آپ کے دستخط ہیں اور اس پر ہم آپ کو بھی توہین عدالت کا نوٹس دے سکتے ہیں،فیصل صدیقی نے کہا میں اس جواب کی مکمل ذمہ داری لیتا ہوں۔چیف جسٹس نے کہا آپ نے جواب میں لکھا ہے آپ پریس کانفرنس میں کہی گئی باتوں سے متفق نہیں، پریس کانفرنس نشر کرتے وقت آپ نے ساتھ یہ لکھا تھا؟ آپ وہ بات جواب میں کیوں لکھ رہے ہیں جو کی نہیں، پریس کانفرنس کرنے والے دونوں نے آکر کم از کم کہا غلطی ہوئی، ہم بھی اپنی غلطی مانتے ہیں لیکن آپ نہیں مانتے ، آپ نے جواب میں کہا پریس کانفرنس کو نشر کرنا آپ کی ڈیوٹی ہے ، پاگل خانے میں کوئی پاگل پریس کانفرنس کرے وہ نشر کرنا بھی آپ کی ڈیوٹی ہے ؟ پریس کانفرنس کرنے والے کہہ رہے ہیں ان سے غلطی ہوگئی، آپ مگر کہہ رہے ہیں کہ آپ کا فرض ہے یہ دکھائیں گے ۔ وکیل نے کہا پریس کانفرنس کرنے والے عوام کے نمائندے تھے ،جسٹس عقیل عباسی نے سوال کیا کہ کوئی بھی شخص آکر کہہ دے میں عوام کا نمائندہ ہوں آپ اسے نشر کریں گے ؟ چیف جسٹس نے کہا آپ جو باتیں کر رہے ہیں وہ کہاں سے کر رہے ہیں؟ پیمرا سے یا کسی بین الاقوامی کنونشن سے دکھائیں۔

وکیل نے کہا حقائق اور سچ میں فرق ہوتا ہے ، چیف جسٹس نے کہا یہ میں آج آپ سے نئی بات سیکھوں گا، فیصل صدیقی نے کہا میں کہاں آپ کو کچھ بھی سکھا سکتا ہوں، سچ کا تناظر وسیع ہوتا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا آپ ہمارے سامنے کھڑے ہیں یہ حقیقت ہے یا سچ؟ بال کی کھال اتارنے جیسی بات کر رہے ہیں، صدیقی صاحب وکیل نے اپنے کلائنٹ کا مفاد دیکھنا ہوتا ہے ، آپ تماشہ نہیں کریں گے تو پیسے کیسے بنیں گے ، سچ بولنے سے تو پیسے نہیں بنیں گے ، گالی گلوچ آج کل عام بات ہو گئی ہے ، بچپن میں ہم ایسی باتیں نہیں سنتے تھے ، ایسی باتیں گلیوں میں ہوتی تھیں اب ایسی باتیں ٹی وی پر ہوتی ہیں۔جسٹس عقیل عباسی نے کہا آپ ٹی وی چینلز پر ایسے لوگوں کو بلاتے ہیں جن کو قانون کا کچھ نہیں علم ہوتا، میڈیسن کی بات ہوتو میڈیکل کا بندہ ہی بات کرتا اچھے لگے گا اور قانون کی بات پر قانون دان۔فیصل صدیقی نے کہا آپ کی تجاویز بہت اچھی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہم نے کوئی تجاویز نہیں دیں، ہم قانون پر عملدرآمد چاہتے ہیں،جسٹس عقیل عباسی نے کہا ہو سکتا ہے مقصد پیسوں سے بھی بڑا ہو۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ان لوگوں کو پتہ نہیں غیبت کیا ہے ، یہ اتنے ماشاء اللہ پڑھے لکھے لوگ ہیں، یہ امریکا کی بات دو دو سال پرانی کرتے ہیں لیکن قرآن و حدیث کی نہیں، کیا کوئی اس سے گھناؤنی چیز ہوسکتی ہے ، یہ تو غیبت سے پیسے بھی کما رہے ہیں، تمام قرآنی آیات اور احادیث کی کاپیاں ان کو بھی فراہم کریں، پتہ نہیں ہمیں کیوں دلچسپی نہیں رہی اپنے دین سے ، یورپی ممالک میں سب بہت محتاط ہوتے ہیں، یہ ہمیں توہین کے ساتھ ساتھ ہتک عزت میں بھی لے جانا چاہ رہے ہیں، ہمیں توہین عدالت کارروائی کا شوق نہیں ہے لیکن معاشرہ تباہ ہو رہا ہے ،جسٹس عقیل عباسی نے کہا جب پیمرا نے کچھ کرنا ہوتا ہے تو کورٹ رپورٹنگ پر بھی پابندی لگا دیتی ہے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو جج کی کرسی پر بیٹھنا چاہتے ہیں، صحافیوں کے خلاف تشدد کو روکا ہے ۔ اٹارنی جنرل نے کہا عدلیہ مخالف کچھ اور پریس کانفرنسز بھی کی گئیں۔چیف جسٹس کے استفار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے رؤف حسن نے آپ کے بارے میں اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے بارے میں تضحیک آمیز الفاظ استعمال کیے ۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پریس کانفرنس میں کیا کہا گیا، رؤف حسن کیا فواد حسن فواد کے بھائی ہیں؟، فواد حسن فواد کے خلاف تو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ وہ تمام ادائیگی جیب سے کریں، ہم نے فواد حسن فواد کے خلاف فیصلہ ختم کیا، شاید ہمارا یہ فیصلہ رؤف حسن صاحب کو پسند نہ آیا ہو، میں اپنے بارے میں کی گئی باتوں پر توہین عدالت کی کارروائی چلانے کے حق میں نہیں ہوں، میرے بارے میں ایک مرتبہ کہا گیا مجھے چوک میں گولی مار دی جائے ، اس دھمکی پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی، میری اہلیہ نے ضرور تھانے میں درخواست دی تھی، موجودہ کیس ایک ساتھی جج نے کہا تو شروع کیا۔ عدالت نے سماعت میں وقفہ کیا اور وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا ہم سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس ختم کر رہے ہیں، ہم پارلیمنٹ کی عزت کرتے ہیں، آپ سے بھی امید ہے عدلیہ کی بطور ادارہ عزت کریں گے ۔سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا میں یقین دلاتا ہوں آئندہ ایسا نہیں ہوگا، ایک جج نے مجھے پراکسی کہا مجھے بہت کرب سے گزرنا پڑا۔ چیف جسٹس نے کہا آپ پہلی بات نہ کہتے شاید دوسری بات نہ کی جاتی۔ مصطفی کمال نے ربا والے کیس کی بات کی تو چیف جسٹس نے روکا اور کہا معاملہ عدالت میں ہے ،شریعت اپیلٹ بینچ کے ایک رکن کے انتقال سے بینچ نامکمل تھا ،بہت عرصے بعد سپریم کورٹ مکمل کی ہے ۔چیف جسٹس نے ٹی وی مالکان کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپکا مؤقف اصولی ہے تو عدالت کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں، فریڈم آف پریس کا اگر کیس ہے تو دباؤ میں نہ آئیں کھڑے رہیں، جب کیس آگے بڑھے گا تو پھر آپ اپنے دلائل میں امریکا اور دیگر ممالک کی مثالیں دیتے رہیے گا۔بعد ازاں عدالت نے فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کی غیر مشروط معافی قبول کرکے ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس جاری کردیا ۔توہین عدالت نوٹس ختم ہونے پرفیصل واوڈانے کمرہ عدالت سے باہرنکلتے ہی سپریم کورٹ میں سجدہ شکراداکیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں