سیاسی مافیا عزم استحکام کا مخالف: یہ آپریشن نہیں، دہشتگردی کیخلاف مہم، 9 مئی کے سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں کو ڈھیل دینے سے انتشار پیدا ہوگا: ترجمان پاک فوج

سیاسی مافیا عزم استحکام کا مخالف: یہ آپریشن نہیں، دہشتگردی کیخلاف مہم، 9  مئی کے سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں کو ڈھیل دینے سے انتشار پیدا ہوگا: ترجمان پاک فوج

راولپنڈی (خصوصی نیوز رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک)پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا 9مئی کے سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں کو ڈھیل دینے سے انتشار پیدا ہوگا، عزم استحکام آپریشن نہیں مہم ہے، ایک سیاسی مافیا اس کیخلاف کھڑا ہوگیا اسے متنازعہ بنانا چاہتا ہے، کسی کی نقل مکانی نہیں ہوگی، کارروائیوں کوقانون سازی سے مستحکم کیا جائیگا۔۔۔

افغان بارڈر پر پاسپورٹ کی شرط لگائی تو احتجاج  شروع ،مظاہرین کا ایک ہی مطالبہ ہے ہمیں سمگلنگ کرنے دو،نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چلیں تو دہشتگرد بھی استعمال کرینگے ،بے نامی پراپرٹیز کا بھی فائدہ اٹھائیں گے ،مفاد پرست عناصر معاملات سیدھے نہیں ہونے دیتے، یہ اس سے بہت مال بناتے ہیں۔ڈائریکٹر جنرل شعبہ تعلقات عامہ (ڈی جی آئی ایس پی آر) نے کہا پریس کانفرنس کا مقصد بعض اہم امور پر افواج کا مؤقف واضح کرنا ہے، حالیہ کچھ عرصے میں مسلح افواج کے خلاف منظم پراپیگنڈا، جھوٹ، غلط معلومات کے پھیلاؤ اور ان سے منسوب من گھڑت خبروں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ، اس لیے ان معاملات کے پیش نظر ہم تواتر سے پریس کانفرنس کریں گے تاکہ نہ صرف کسی بھی صورتحال پر مؤقف کی وضاحت ہوسکے بلکہ جان بوجھ کر پھیلائی گئی افواہوں اور جھوٹ کا بر وقت سدباب کیا جاسکے ۔

پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے آپریشن عزم استحکام سے متعلق پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس پر بہت زیادہ کنفیوژن ہے کہ عزم استحکام کیا ہے ؟ ہمارا مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ ہم انتہائی سنجیدہ مسائل کو بھی ہم سیاست کی نظر کردیتے ہیں، عزم استحکام اس کی ایک مثال ہے ، میں کہوں گا کہ عزم استحکام ایک ہمہ گیر اور مربوط انسداد دہشتگردی مہم ہے ، یہ ملٹری آپریشن نہیں ہے، عزم استحکام کے اوپر 22 جون کو نیشنل ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے وزیر اعظم کی زیر صدارت، اس میں وزیر دفاع، نائب وزیر، وزیر انفارمیشن اور متعلقہ وزرا موجود تھے ، سارے صوبوں کے وزیر اعلیٰ بھی موجود تھے ، چیف سیکرٹریز بھی تھے ، متعلقہ سروسز چیف بھی موجود تھے، آرمی چیف بھی تھے اس کے بعد سارے متعلقہ افسران بھی تھے ، اس اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری ہوا اور یہ کنفیوژن شروع ہوگئی،اعلامیے میں بتایا گیا تھاکہ ایپکس کمیٹی کے فورم نے کاؤنٹر ٹیررازم مہم پر تفصیلی جائزہ لیا اور نیشنل ایکشن پلان کے ملٹی ڈومینز کو دیکھا، اور انہوں نے اس کے نفاذ میں خامیوں کی نشاندہی کی اور اس بات پر زور دیا کہ ایک تفصیلی کاؤنٹر ٹیررازم سٹرٹیجی کی ضرورت ہے، اس کے بعد وزیر اعظم نے ایک مزید متحرک کاؤنٹر ٹیررازم مہم کی منظوری دی، تو یہ ایک مہم ہے، اور اس مہم کوہم آپریشن عزم استحکام سے لانچ کریں گے اس میں اتفاق رائے ہوگا، اس میں کوشش کی جائے گی کہ جو کوششیں چل رہی ہیں اس کو مؤثر قانون سازی کے ذریعے بااختیار بنایا جائے گا، ایک قومی سطح پر بیانیہ بنایا جائے گا۔

فورم نے کہا کہ کسی کو بھی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس میں کون سے آپریشن کی بات ہورہی ہے ؟ اور یہی ہے اس ڈاکومنٹ میں، یہ سب کے پاس ہی ہے ، اس کے بعد ایک بیانیہ بنایا گیا کہ آپریشن ہورہا ہے ، لوگوں کو بے دخل کیا جارہا ہے اور ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں، جب یہ بیانیہ بنا تو صرف دو دن بعد 24 جون کو وزیر اعظم آفس ایک اور اعلامیہ جاری کرتا ہے اس میں کہا گیا عزم استحکام کو غلط سمجھا جارہا اور اس کا راہ نجات، ضرب عضب سے غلط موازنہ کیا جارہا ہے ، پہلے نو گو ایریاز تھے جہاں ریاست کی رٹ نہیں تھی تو اس لیے اسے ختم کرنے کیلئے آپریشن کیا گیا، اس وقت نو گو ایریاز نہیں ہیں، اس لیے کوئی بڑے پیمانے پر ملٹری آپریشن نہیں ہورہا۔ عزم استحکام ملٹی ڈومین، ملٹی ایجنسی، ہول آف دی سسٹم، نیشنل وژن ہے ، یہ نیشنل ایکشن پلان کو دوبارہ متحرک کرے گا اس کے علاوہ کچھ نہیں، اور اس کا مقصد دہشتگردوں اور کریمنل کے نیکسس کو توڑنا ہے ، یہ دو دستاویزات ہیں تحریری لیکن پھر بھی عزم استحکام کو متنازعہ بنایا جارہا ہے ، ایک بہت مضبوط لابی ہے جو چاہتی ہے کہ یہ جو مقاصد ہیں وہ پورے نہ ہوں، اب وہ یہ کیوں چاہتے ہیں تو اس کے لیے ریوائزڈ ایکشن پلان دیکھیں۔ 2014 میں جب اے پی ایس کا واقعہ ہوا تو تمام سٹیک ہولڈرز بیٹھے اور نیشنل ایکشن پلان بنایا 21 نکات کا، اس کے اثرات بھی سب نے دیکھے ، آخری حکومت میں وزیر اعظم نے ایپکس کمیٹی میں ریوائزڈ نیشنل ایکشن پلان 14 نکات والا منظور کیا، اس میں بھی سیاسی اتفاق رائے تھا، کیوں ایک بہت بڑا سیاسی اور غیر قانونی مافیا کھڑا ہوگیا کہ ہم نے یہ کام نہیں ہونے دینا؟ اس کی پہلی چال یہ ہے کہ اس کو متنازعہ بنادیں وہ ان کے اندر ہے ۔

اگر ان 14 نکات کو دیکھیں تو اس میں جو کائنیٹکس سے متعلق پوائنٹ ہے وہ بہترین طریقے سے ہورہا ہے ، جو فوج کی ذمہ داری ہے وہ ہورہی ہے جیسا کہ میں نے پہلے ہی بتایا ہے ، تو مسئلہ دیگر نکات میں ہے ،یہ ضروری سمجھا گیا 2014 اور 2021 میں بھی کہ انسداد دہشتگردی کے محکمے بنائے جائیں، نیکٹا ہر سال ریوائزڈ نیشنل ایکشن پلان کی اپ ڈیٹ نکالتی ہے ، اس اپ ڈیٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں سی ٹی ڈی کی سٹرینتھ 2437 ہے ، جو فیلڈ آپریٹرز ہیں وہ 537 ہیں، دہشتگردی وہاں دیکھیں کتنی ہے ، بلوچستان میں سی ٹی ڈی کی تعداد 3438 ہے اور اس میں آپریشنل فیلڈ آپریٹرز 2776 ہیں۔اس میں بات کی گئی کہ مدارس کو ریگولیٹ اور رجسٹر کیا جائے ، تقریباً 32 ہزار سے زائد مدارس ہیں پاکستان میں، اس میں 16 ہزار ہی رجسٹرڈ ہیں اور 50 فیصد مدارس کا تو پتا نہیں کہ کون چلا رہا ہے ؟ کیا یہ کام فوج نے کرنا ہے ؟ اس وقت نیکٹا کے مطابق اے ٹی سی کورٹس خیبرپختونخوا میں 13 اور بلوچستان میں 9 ہیں، اتنی زیادہ دہشتگردی ہے کہ ہم اس سال میں 22 ہزار 400 سے زیادہ آپریشن کر چکے لیکن پچھلے پورے سال میں بلوچستان میں صرف 10 سزائیں ہوئیں اور خیبر پختونخوا میں 14، ہم 2014 سے کہہ رہے کہ ہم نے کریمنل جسٹس سسٹم کو مضبوط بنانا ہے ۔

ٹیرر کرائم نیکسس میں دہشتگردی پنپتی ہے اور سب نے فیصلہ کیا کہ اس سپیکٹرم کو روکنا ہے ، یہ غیر قانونی سپیکٹرم ہر جگہ موجود ہے اور اس میں غیر قانونی معیشت چھپی ہے اور اسی سے دہشتگردی پنپتی ہے ، میں آپ کو مثالیں دے دیتا ہوں، نان کسٹم پیڈ گاڑیاں لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں موجود ہیں یا نہیں؟ یہ اس غیرقانونی سپیکٹرم کا پارٹ ہے نا؟ اس میں اربوں کا بزنس ہو رہا ہے نا؟ انہی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے اندر دہشت گرد بھی آپریٹ کرتے ہیں، جب ایک ملک میں، کچھ اضلاع میں، کچھ جگہوں میں یہ نارمل ہو کہ بغیر کاغذ کے گاڑی چل سکتی ہے ۔ تو اس کے درمیان میں دہشت گرد بھی آپریٹ کرتے ہیں، بے نامی پراپرٹیز، بے نامی اکاؤنٹس کیا یہ اس غیرقانونی سپیکٹرم کا حصہ نہیں ہیں؟ اگر آپ اس کو برداشت کریں گے تو اس کے اندر دہشت گرد بھی آپریٹ کریں گے ۔ افغانستان کے ساتھ جو سرحد ہے ، افغانستان کے 6 ملکوں کے ساتھ بارڈر لگتے ہیں، پاکستان کے علاوہ تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، چین، ایران کے ساتھ بھی اس کی سرحد ہے ، افغانستان میں ترک، تاجک، ازبک بھی رہتے ہیں، لیکن باقی ملکوں کے ساتھ تو وہ پاسپورٹ کے ساتھ جاتے ہیں، نارمل سرحد ہے ، ویزا سسٹم ہے ، تو پھر ہماری سرحد پر کیوں تذکرے یا شناختی کارڈ دکھا کر اندر چلے جائیں، اس کو ایک سافٹ بارڈر رکھا ہے ، کیونکہ وہ غیرقانونی سپیکٹرم کو فیسیلیٹیٹ کرتا ہے ۔

2023 میں ایل سیز کو کم کیا کیونکہ ڈالرز کی قلت تھی، تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایکدم سے اربوں ڈالر کے لحاظ سے بڑھ گیا، کیونکہ وہاں جو سامان جاتا ہے ، وہ آپ کی مارکیٹوں میں بکتا ہے ، بکتا ہے یا نہیں بکتا؟ روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے تیل کی سمگلنگ سے بنائے جاتے ہیں، 50 سے 60 فیصد غیر قانونی سگریٹ بکتے ہیں، اربوں روپے کا اس میں مافیا ہے ، ہے یا نہیں ہے ؟ ستمبر سے اب تک ہم ایک ہزار ٹن سے زیادہ غیرقانونی منشیات پکڑ چکے ہیں، لیکن کتنی زیادہ مقدار افغانستان سے آرہی ہے ، اس میں بھی اربوں روپیہ ہے ، تو یہ جو غیرقانونی سپیکٹرم ہے ، اس کی ایک ریکوائرمنٹ ہے ، جو سافٹ اسٹیٹ ہے ، اور اس کا حل یہ نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان ہے ، یہ نہ صرف دہشتگردی کا جواب ہے ، یہ پوری ریاست اور سوسائٹی کو اوپر اٹھاتا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ اس میں ذاتی مفادات ہیں، جو اس پر عملدرآمد نہیں ہونے دیتے اور وہ بہت سارا پیسہ بنا رہے ہیں، عزم استحکام ایک مہم ہے صرف دہشتگردی کیلئے نہیں بلکہ یہ پورے ملک کیلئے مفید ہے اور اس کے سٹیکس بہت ہائی ہیں،ابھی چمن میں حکومت، ریاست نے کہا کہ ہم اس پر ون ڈاکومنٹ رجیم (پاسپورٹ) لگائیں گے ، تو وہاں پر ذاتی مفادات ہیں، چاہے وہ سیاسی ہے یا غیر سیاسی، انہوں نے وہاں پر احتجاج نہیں شروع کر دیا؟ آپ کے سامنے ہے ، ایف سی والوں کو پتھر مارا، انسانی حقوق کی تنظیمیں آگئیں کہ لوگوں کو بٹھا دو، اور ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہمیں سمگلنگ کرنی ہے اور نیچے جو لوگ اس میں ملوث ہیں، انہیں تو بہت تھوڑا پیسہ ملتا ہے ، اوپر جو مافیا ہے ، وہاں پر بہت اربوں روپے کی رقم جاتی ہے اور وہ لوگ یہاں پیسہ نہیں رکھتے ڈالروں میں باہر لے جاتے ہیں، اس سے معیشت کو اور نقصان ہوتا ہے ،عزم استحکام میں جب کہا گیا کہ ہم نے ٹیرر کرائم نیکسس کو توڑنا ہے ، تو وہ مافیا بہت پریشان ہو گیا، توکہا گیا کہ جو کچھ بالکل واضح لکھا ہوا ہے ، پہلے تو اس کو متنازعہ بناتے ہیں،کیونکہ سٹیک بہت بلند ہیں، اس میں کوئی نظریات نہیں ہیں، یہ سب پیسہ ہے اور یہ تھوڑا بہت پیسہ نہیں ہے ، اس کا تھوڑا پیسہ میڈیا، سوشل میڈیا میں بھی لگا دیںِ کہ عزم استحکام کے خلاف بولیں اور بتائیں کہ یہ متنازعہ ہے ، اس سافٹ اسٹیٹ کو سسٹین کرنے کے لیے آپ دہشت گردوں کو بھی لگائیں کہ اپنی ایف سی اور فوج کو مصروف رکھو، آپ نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی لگائیں، چونکہ ریاست اس کے خلاف کھڑی ہے اور ریاست اس ٹیرر کرائم نیکسس کو، جو کرائم اور دہشت گردی کی بنیاد ہے ، اس پر حملہ کرنا شروع ہو گئی ہے ، تو اٹھاؤ مسنگ پرسن، چلو امن مارچ کی بات کرو اور اٹیک کرو اپنی فوج، اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں، اپنی پولیس اور اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر، یہ بات نہیں کرنی کہ اے ٹی سی کورٹس بنائی جائیں، یہ بات نہیں کرنی کہ محکمہ انسداد دہشت گردی کو مضبوط بنایا جائے ، یہ بات نہیں کرنی کہ مدارس کو ریگولیٹ کیا جائے اور ان کی رجسٹریشن کی جائے ، جو اس غیرقانونی سپیکٹرم کے سامنے کھڑا ہے ، اس کی نشاندہی کر رہا ہے ، اس کو روک رہا ہے ، اس کے اوپر اٹیک کر دو، یہ آپ کے سامنے ہے ، اسی وجہ سے جو بھی اس کا حصہ ہے اور سپیکٹرم کی سرپرستی میں شامل ہے ، وہ عزم استحکام کے خلاف لگا ہوا ہے ۔

اگر اس طرح کرتے رہیں گے تو کیا ہوگا؟ جب یہ پالیسی تھی کہ جو دہشت گرد ریاست کی رٹ کو تسلیم نہیں کریں گے ، اس کے آگے کھڑے ہوں گے ، تو جو تھری ڈی پالیسی تھی، جس میں ڈائیلاگ، ڈویلپ اور ڈیٹر تھا، اس میں ان لوگوں کو ڈیٹر کرنا تھا جنہوں نے ریاست کے سامنے اپنے سر تسلیم خم نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ ہم اپنی شریعت، اپنا قانون، اپنی سوچ نافذ کرناچاہیں گے ، جبکہ فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حکمت عملی تھی اور ہے کہ کلیئر، ہولڈ، بلڈ، ٹرانسفر۔ فوج تو ایریاز کو کلیئر بھی کر رہی ہے اور کر چکی ہے ، ہولڈ کرتی ہے ، اس کے بعد صوبائی حکومتوں کا کام ہے کہ بلڈ اور ٹرانسفر کرے ، اگر آپ انہیں بلڈ نہیں کریں گے اور اس کو لوگوں کو ٹرانسفر نہیں کریں گے تو وہاں پر دہشت گرد دوبارہ آ جائیں گے ، اس لیے باقی ادارے بلڈ اور ٹرانسفر کا کام نہیں کریں گے ، تو آپ کلیئر اور ہولڈ کے چکر میں پڑ جائیں گے کہ بس فوج کلیئر کرے اور ہولڈ کرے ۔ اگر فوج یہی کرتی رہے گی تو وہاں کے عوام کو فوج کے خلاف بھڑکانا اور اس کے خلاف نفرت پیدا کرنا مزید آسان ہو جائے گا، کیونکہ آپ بلڈ اور ٹرانسفر کرنے کا اپنا کام تو کر نہیں رہے ۔15 جولائی کو صبح کے وقت دہشتگردوں نے بنوں کینٹ پر حملہ کیا، ہماری فوج نے بھرپور جواب دیا، اور ہمارے 8 جوان شہید ہوئے ، ہمارے جوانوں نے ہمت کے ساتھ دہشتگردوں کو ہلاک کیا، اگلے دن بنوں کے ٹریڈرز نے کہا کہ ہم نے امن مارچ کرنا ہے اور جب یہ مارچ ہوا تو کچھ مخصوص منفی عوامل شامل ہوگئے اور جب وہ بلاسٹ ہونے والی روڈ سے گزرے تو انہوں نے ریاست مخالف نعرے لگائے ، پتھراؤ کیا، اس میں مسلح لوگ بھی شامل تھے ، انہوں نے فائرنگ کی اور ایک عارضی دیوار کو گرایا اور سپلائی ڈپو کو بھی لوٹا۔

جہاں مارچ کا مرکزی مقام تھا وہاں بھی مسلح لوگ شامل ہوگئے اور وہاں بھی جانی نقصان ہوا فائرنگ سے ، فوج نے ایس او پی کے تحت ہی کارروائی کی ہے ۔ جب 9 مئی کا واقعہ ہوا تو ایک مخصوص گروہ، ایک انتشاری ٹولے نے یہ بات کی، کہ فوج نے ان کو روکا کیوں نہیں، ان کو گولی ماردیتے ، کیونکہ انہوں نے ان کو گولی نہیں ماری اس کا مطلب یہ خود ان کو لے کر آئے ، یہ بیانیہ ہر طرف چلایا گیا، فوج کا سسٹم بہت واضح ہے اور اس کے مطابق کام ہوتا ہے ، اگر فوجی تنصیبات پر کوئی حملہ کرتا ہے تو پہلے تنبیہ دی جاتی ہے ، اگر پھر بھی آتا ہے تو ہوائی فائر کیا جاتا ہے اور پھر آگے کی کارروائی ہوتی ہے ۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ یہ کیوں ہوا؟ یہ اس لیے ہوا کیونکہ آپ کا عدالتی نظام ہے ، جو 9 مئی کے منصوبہ ساز ہیں ان کو ڈھیل دے رہا ہے ، ان کو کیفر کردار تک نہیں پہنچائے گا تو ملک میں انتشار، فسطائیت مزید پھیلے گی، یہ احتجاج، یہ لا ایند آرڈر یہ تو صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے فوج کی نہیں، ایک ہجوم میں شرپسند عناصر گھستے ہیں اور لوگوں کو مارتے ہیں تو یہ ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے ، یہ نہیں سمجھ آتا کہ سیاسی جماعت اپنی ہی صوبائی حکومت کے خلاف کس بات کا احتجاج کر رہی ہے ؟عوام کا دہشتگردوں کے خلاف احتجاج جائز ہے ، ان شہریوں کے لیے جائز ہے جو شہید ہوئے ، ڈیرہ اسمعیل خان میں جن بچیوں کو رورل ہیلتھ سنٹر میں دہشتگردوں نے بھون دیا ان کے لیے مارچ کریں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بنوں واقعے کی کچھ ویڈیوز دکھاتے ہوئے کہا کہ دیکھیں کیسے لوگوں کے ہاتھوں میں پتھر دے دئیے گئے ، دوسرے ممالک کے زخمی بچوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر چلائی گئیں کہ بنوں میں بچوں کو مارا گیا،کالعدم ٹی ٹی پی کے نور ولی محسود کی مبینہ آڈیو لیک کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ جو آڈیو کال ہے اس میں جو خارجی ولی ہے اس نے کیا کہا وہ صاف صاف ہدایات نہیں دے رہا، اس نے کہا کہ سکول، کالج، گھروں کو اڑاؤ پر میرا نام نہ آئے ، یہ کونسا اسلام ہے جس میں سکول کالج کو اڑانے کا کہا گیا ؟ اس سے ہمارا عزم مضبوط ہوتا ہے کہ عزم استحکام بہت ضروری ہے ، ان دہشتگردوں کا اسلام سے تعلق نہیں۔ٹی ایل پی کے دھرنے پر وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک حساس اور اہم معاملہ ہے ، فلسطین کے مسئلے پر فوج اور حکومت کا واضح مؤقف ہے کہ یہ قتل عام ہے اور ناقابل قبول ہے ، فارمیشن کمانڈر اور کور کمانڈر کانفرنس میں بھی اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے ، پاکستان کے سفیر اقوام متحدہ میں منیر اکرم وہ بھی پاکستان کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں اور سب ان کو سراہتے ہیں کہ کیسے انہوں نے مغربی ممالک کے رویے کو بے نقاب کیا، پاکستان نے فلسطین میں کئی ٹن امدادی سامان بھی بھجوایا غزہ میں، یہ دھرنا جو ہوا تو حکومت اور ادارے اس حساسیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس پر پراپیگنڈا ہوگیا کہ اسے فوج نے کروایا۔ فیک نیوز اتنی عام ہوگئی ہے کہ اس کا کوئی احتساب بھی نہیں، ایک اور فرنٹ جہاں پر ہنگامہ ہو لیکن اس کو حل کرلیا جائے تو اس پر بھی پراپیگنڈا ہوجاتا ہے ، ہماری سوچ بہت منفی ہوگئی ہے ۔

آرمی چیف اور ایس آئی ایف سی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر فوج اور قیادت کے خلاف جو بات چیت ہورہی ہے تو دو حصے ہیں اس کے کہ یہ کیا ہورہااور کیوں ہو رہا ہے ؟ یہ ڈیجیٹل دہشتگردی ہے ، جس طرح دہشتگرد بم پکڑتا ہے تو ڈیجیٹل دہشتگرد جھوٹ، فیک نیوز کے ذریعے اضطراب پھیلا کر اپنی مرضی مسلط کرتا ہے ، ان کا تو کبھی پتا بھی نہیں ہوتا، بے نامی اکاؤنٹ ہوتے ہیں کہاں سے تانے بانے مل رہے کچھ نہیں پتا چلتا لیکن دونوں کا ہدف صرف فوج ہے ، جو خارجی دہشتگرد ہے وہ بھی اور ڈیجیٹل دہشتگرد بھی فوج کو نشانہ بنا رہا ہے ۔خارجی دہشتگرد کو آپریشن کے ذریعے نیوٹرلائز کرتے ہیں اور ڈیجیٹل دہشتگرد کو قانون کے ذریعے روکا جاتا ہے ، ہمارے ملک میں فوج کے خلاف بیہودہ بات چیت کی گئی، اس سال اس فیک نیوز پر کتنی کارروائیاں ہوئیں؟ بجائے اس کے کہ ان کے خلاف قانون آگے بڑھے ان کو سپیس دی جاتی ہے، آزادی رائے کے نام پر ان کو ہیرو بنادیا جاتا ہے ، ہمارے ملک میں بہت بڑا حملہ ہوا، سب کے سامنے ہوا، ایک طرف ہمارا خارجی ٹولہ افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہے ، اور دوسری طرف بھارت ہے جو کہ موقع کی تاک میں ہے کہ کب اس کی فوج کمزور ہو تو ہم اپنا کام کریں اگر یہ ہو تا رہا اور ہم نے ریگولیشن کے تحت اس پر کام نہیں کیا تو اسے مزید سپیس ملے گی۔انہوں نے کہا ہم ملک میں دہشتگردی کی اجازت نہیں دے سکتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں