قومی اسمبلی:حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کر دیا، پارٹی وابستگی کا اقرار نامہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا،فہرست جمع نہ کرانے پر مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی،اپوزیشن کا احتجاج:مخصوص نشستوں پر نئی قانون سازی شروع

قومی اسمبلی:حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کر دیا، پارٹی وابستگی کا اقرار نامہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا،فہرست جمع نہ کرانے پر مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی،اپوزیشن کا احتجاج:مخصوص نشستوں پر نئی قانون سازی شروع

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر،نامہ نگار،سیاسی رپورٹر)حکومت نے مخصوص نشستوں پر نئی قانون سازی شروع کردی ،انتخابات ایکٹ 2017 میں مزید ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا۔

 بل کے تحت کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اقرار نامہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور جس جماعت نے مخصوص نشستوں کی فہرست نہ دی ہو اسے مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں، ایوان نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔الیکشن ایکٹ 2017 میں مزید ترامیم کا بل مسلم لیگ ن کے بلال اظہر کیانی نے پیش کیا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی سفارش پر سپیکر قومی اسمبلی نے بل مزید غور کیلئے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔ اپوزیشن نے بل کی مخالفت کرتے نو نو کے نعرے لگائے ۔بل کے متن میں کہا گیا کہ آزاد رکن آئین کے تحت 3 دن میں کسی بھی جماعت میں شامل ہوسکتا ہے تاہم اسکے بعد دوسری جماعت میں شمولیت نہیں کر سکے گا۔ دوسری مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے  کہ جس پارٹی نے مخصوص نشستوں کی فہرست نہ دی ہو اسے مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں۔بل کے متن میں تجویز دی گئی کہ آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 میں آزاد امیدواروں کو دوبارہ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ مجوزہ مدت کے اندر مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہ کرانے والی جماعت مخصوص نشستوں کی اہل نہیں ہوگی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ جس امیدوار نے ریٹرننگ افسر کے سامنے جماعت سے وابستگی کا بیان حلفی جمع نہ کرایا ہو اسے آزاد تصور کیاجائے گا۔ الیکشن کے بعد پارٹی وابستگی ظاہر کرنے والا امیدوار کسی سیاسی جماعت کا امیدوار نہیں سمجھا جائیگا اور الیکشن کا دوسرا ترمیمی بل 2017سے نافذ العمل ہوگا ۔ترمیمی ایکٹ 2024 کے مطابق یہ دونوں ترامیم منظوری کے بعد فوری نافذالعمل ہوں گی۔ ایوان نے نیشنل ایکسی لینس انسٹیٹیوٹ کے قیام کا بل بھی منظور کر لیا ۔

علاوہ ازیں توجہ دلائو نوٹس کے جواب میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا 35 ارب روپے سے ہیپاٹائٹس کے علاج کا وزیراعظم پروگرام شروع کیا گیا ہے ۔پمز میں ایک سال میں 90 ہزار ٹیسٹ ہوئے ، 3 ہزار 664 مثبت کیسز سامنے آئے ، یہ شرح چار فیصد رہی، ان کو ادویات بھی فراہم کی گئیں۔ ایوان میں بنوں کینٹ، ڈی آئی خان، ضلع کرم، گوادر اور عمان کی مسجد سمیت ملک بھر میں دہشتگردی واقعات میں شہید ہونے والے سکیورٹی اہلکاروں اور ارکان قومی اسمبلی کے عزیز و اقارب کے ایصال ثواب کیلئے دعا کی گئی ۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے کہا ختم نبوت پرکوئی دو رائے نہیں ، ہمارا کامل ایمان ہے ۔سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے گئے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے ،ججز کی رائے کو پارلیمنٹ کے توسط سے مسترد کرنا چاہیے ۔ نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے صاحبزادہ حامد رضا نے کہا وہاں بات کی گئی کہ اپنی بلڈنگ کے اندر سب کچھ کرسکتے ہیں ،سپریم کورٹ سے پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی متنازعہ فعل کرے تو اس کو اجازت دی جائے گی۔ ہماری سیٹیں ہماری عزت سب کچھ حرمت نبی ؐ پر قربان ہے ۔آئین کو ری رائٹ کیا گیا،یہ ایوان بھی کمیٹی بنائے ،سپریم کورٹ فیصلے پر نظر ثانی کرے ۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا حامد رضا نے جو بات کی اس پر کوئی دو رائے نہیں ،ختم نبوت پر ہمارا کامل ایمان ہے ۔جب بات آئین و قانون کی آتی ہے تو فرض ہے پہلے دیکھا پڑھا جائے اور پھر رائے دی جائے ،آرٹیکل دو سو پچانوے سی صرف نبی کریمؐ سے متعلق ہے ، انکی آئین کو ری رائٹ کرنے کی بات ٹھیک ہے ۔ سپریم کورٹ کو تشریح کا اختیار ہے لیکن لکھی گئی شقوں کو نیا رنگ اختیار دینے کا حق نہیں ۔ آرٹیکل تریسٹھ اے کے بہت سارے متاثرین موجود ہیں۔

کوئی متنازعہ بات نہیں کرنا چاہتا اگر اس کو کمیٹی میں بھیجنا ہے تو وہاں پر غور کرلیا جائے ۔ کیا کسی کو حق حاصل ہے کہ چیف جسٹس کے قتل کا فتویٰ جاری کرے ؟ کسی کو قتل کے فتوے دینے کا حق نہیں دیا جاسکتا، اس پر ریاست کو زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنانی چاہیے ۔ رکن اسمبلی علی محمد خان نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے پر پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جواس وقت تک کام کرے جب تک سپریم کورٹ اس فیصلے پر نظر ثانی نہ کرے ۔ پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی قادر پٹیل نے کہا معاملہ زیر بحث ہی نہیں لانا چاہیے ،مسلمانوں کی سب سے بڑی دولت ختم نبوت ہے ۔ یہ پارلیمنٹ آج پیغام دینا چاہتی ہے ظلم ہم نہیں کرتے حملہ ہم پر ہورہا ہے ،کوئی کمیٹی نہ بناؤ اس مسئلے کو دوبارہ ڈسکس کرنے کی ضرورت نہیں جنکے فیصلے سے مایوسی پھیلتی ہے ، انکی کمیٹی بنائی جائے جو آئین میں تحریف کرتے ہیں کیا ان پر آرٹیکل چھ لگتا ہے کہ نہیں؟۔ جے یو آئی (ف) کے رکن اسمبلی مولا نا عبدالغفور حیدری نے کہا ججز بتائیں کہ آئین میں ترمیم کا اختیار کہاں سے ملا ۔آج ہی اس پر قرارداد پاس کریں ہم نہیں کہیں گے کہ تلوار اٹھاؤ لیکن ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسا اقدام کرے ۔ ججز کی اس رائے کو پارلیمنٹ کے توسط سے مسترد کرنا چاہیے ، ججز اپنی رائے واپس لیں اور غلطی کا اعتراف کریں۔ وزیر قانون نے کہا تمام ارکان سپریم کورٹ کے فیصلے کو پڑھیں جو اس کمیٹی میں آنا چاہیں آسکتے ہیں اس ہاؤس کو اختیار ہے کہ اس بات کا حل نکالے ۔ سپیکر نے معاملے کو قائمہ کمیٹی قانون کو بھجوادیا اور کہا اس معاملے پر کمیٹی کا اجلاس آج ہی بلایا جائے اس میں سب کو بلوایا جائے جو ارکان اجلاس میں شرکت کرنا چاہتے ہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں