سینیٹ: سپریم کورٹ ججز بڑھانے کا بل پیش: تعداد چیف جسٹس کے علاوہ 20 کی جائے: سینیٹر عبدالقادر یہ عدالتی مارشل لا کی تیاری، 7 نہیں 2 ججوں کے اضافے پر تیار ہیں: تحریک انصاف

سینیٹ: سپریم کورٹ ججز بڑھانے کا بل پیش: تعداد چیف جسٹس کے علاوہ 20 کی جائے: سینیٹر عبدالقادر یہ عدالتی مارشل لا کی تیاری، 7 نہیں 2 ججوں کے اضافے پر تیار ہیں: تحریک انصاف

اسلام آباد(لیڈی رپورٹر، دنیا نیوز ،نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھا کر 21 کرنے کا ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کر دیا گیا، پاکستان تحریک انصاف نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے احتجاج کیا جبکہ ارکان قومی اسمبلی کیلئے بی اے کی شرط کا مسودہ قانون مسترد کردیا گیا۔۔۔

 چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت اجلاس میں سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کے حوالے سے بل عبدالقادر نے پیش کیا جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد چیف جسٹس کے علاوہ 20 کی جائے ،بل کی تحریک پیش ہونے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا اور ایوان میں نو ۔نو۔ کے نعرے لگائے۔ عبدالقادر نے کہا سپریم کورٹ میں 53 ہزار سے زیادہ کیسز زیر التوا ہیں، سپریم کورٹ میں کیس آنے میں دو دو سال لگ جاتے ہیں، میرے خیال میں تو 16 ججز بڑھنے چاہئیں، سپریم کورٹ میں آئینی معاملات بہت آرہے ہیں، لارجر بینچ بن جاتے ہیں اور ججز آئینی معاملات دیکھتے ہیں، اربوں روپے کے کیسز سپریم کورٹ میں پھنسے ہیں، سپریم کورٹ کے پاس ٹائم نہیں کہ وہ ایسے کیس سنے ، ہمارا عدلیہ کا نظام نیچے سے ٹاپ پر ہے ۔ وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا یہ حقیقت کی باتیں ہیں، سزائے موت کے کیسز زیر التوا ہیں، عمر قید کی سزا 25 سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی، ایک شخص اپیل التوا ہونے کی وجہ سے 34 سال جیل میں گزار کر گیا، 2015 سے سزائے موت کی اپیلیں زیر التوا ہیں، پشاور ہائیکورٹ نے دس ججز کا اضافہ مانگا ہے ، وہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے ، وہ ججز انہیں دے رہے ہیں، بل کمیٹی کوبھیج دیں۔

پی ٹی آئی کے علی ظفر نے کہا یہ قانون ایک دم سے آیا ہے کہ ججز کی تعداد بڑھا دی جائے، جوڈیشل مارشل لا کی کوشش کی جارہی ہے ، اس لیے 7 ججز مانگے جارہے ہیں، ہم دو ججز کی تعداد بڑھانے کو تیار ہیں، اگر آپ کو ججز کی تعداد بڑھانی ہے تو پہلے ماتحت عدلیہ سے بڑھائیں۔ سیف اللہ ابڑو نے کہا جب سے سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ دیا ہے تب سے یہ ججز کی تعداد بڑھانے کی بات کر رہے ۔ایمل ولی نے کہا کہ جب فیصلے کہیں اور سے ہوں تو ایسا ہوتا ہے ، ماتحت عدلیہ کیلئے تفصیلی اصلاحات لا رہے ہیں، ایوان زیریں کو پھر استعمال کیا جا رہا ہے ، میڈیا میں خبریں آ رہی ہیں کہ اضافی ججز کس کو چاہیے ۔ بعدازاں چیئرمین سینیٹ نے بل متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا۔خیال رہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 ہے اور اس کے علاوہ 2 ایڈہاک ججز بھی کام کر رہے ہیں۔دریں اثنا پی ٹی آئی کی سینیٹر فوزیہ ارشد نے اراکین قومی اسمبلی کیلئے بی اے کی شرط کا بل پیش کیا ،وزیر قانون نے کہا اس بل کی وجہ سے پہلے بھی بہت تباہی ہوئی ہے ،یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ، سیاست میں سب کا حق ہے یہ ووٹر پر چھوڑا جائے کہ وہ کسی پی ایچ ڈی کو اپنا نمائندہ بنانا چاہتا ہے یا کسی ان پڑھ کو، یہ عوام کا اختیار ہے کہ وہ کسی آٹھ جماعت پاس شخص کو اپنا نمائندہ بناتے ہیں یا کسی ایم اے یا بی اے پاس شخص کو اراکین اسمبلی کو تعلیم یافتہ ہونا چاہیے مگر یہ قانون ایک آمر کی جانب سے ہمارے گلے میں ڈالا گیا ،شبلی فراز نے کہااچھا لگا کہ وزیر قانون نے اپنی وضاحت کرنے کے دوران کہا کہ ایک آمر کے دور میں لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے یہ قانون لایا گیا ، آج کے دور میں کس طرح وفادداریاں تبدیل کرائی جارہی ہیں ،اراکین اسمبلی کا کوئی نہ کوئی معیار تو ہونا چاہیے ، جو ایک آمر نے کیا، آج اس سے بھی برا ہورہا ہے، وزیر قانون نے کہاوفاقی المدارس سے ایم اے کی ڈگری لینے والوں کو کلمہ بھی نہیں آتا تھا ، میں نے واقعاتی باتیں کی تھیں، فوزیہ ارشد نے کہاہمارا مقصد قانون سازی ہے اور اگر ہمارے پاس تعلیم نہ ہو تو ہم کیسے قانون سازی کریں گے ،شعور سب کے پاس ہوتا ہے ، فروری 2024کے انتخابات میں ہمار ا مینڈیٹ چوری کیا گیا اس موقع پر چیئرمین کمیٹی نے اراکین سے رائے لینے کے بعد بل پیش کرنے کی تحریک مسترد کردی۔علاوہ ازیں عرفان صدیقی نے اسلام آباد میں جلسوں پر پابندی سے متعلق ‘‘پر امن اجتماع و امن عامہ بل 2024 ’’پیش کیا،اپوزیشن نے شدید مخالفت کی اور دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کو جلسوں سے روکنے کیلئے یہ بل پیش کیا گیاہے ۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے نقطہ اعتراض پر جواب دیتے ہوئے کہا صوبوں نے اپنے طور پر قانون سازی کی ہے ، میں اس بل کی مخالفت نہیں کرتا، شبلی فراز نے کہا کہ ریاست کے کسی ادارے سے جلسے کی اجازت ملتی ہے آخری دن وہ منسوخ کر دی جاتی ہے ، جب جلسے کی اجازت ملتی ہے تو اس کو منسوخ نہیں کرنا چاہیے ، آج حکومت جو کررہی وہ کل خود ہی اس کا شکار ہو گی، شہر کو حکومت نے محصور کیا ہوا ہے ، بل میں جلسہ کرنے کیلئے جگہوں کا بھی تعین کردیں تو بہتر ہے ، ورنہ ہم اس پورے بل کی مخالفت کرتے ہیں، کسی سطح پر اچھی خبریں نہیں مل رہی ہیں، یوٹیلیٹی سٹورز کے ملازمین سراپا احتجاج ہیں،عرفان صدیقی نے کہا کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر کنٹینر پاکستان تحریک انصاف کیلئے نہیں ہیں، ہم نے صرف سیاسی جلسوں کو سہل نہیں کرنا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا پاکستان تحریک انصاف بل کی مخالفت کرتی ہے ،چیئرمین سینیٹ نے اپوزیشن کے اعتراض اور مخالفت پر بل متعلقہ کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے دو روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔ایوان بالا میں قومی ہیرو گولڈ میڈلسٹ اولمپیئن ارشد ندیم کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔مزید برآں سینیٹ نے شبلی فراز، بلال احمد، سلیم مانڈوی والا، افنان اللہ، فوزیہ ارشد اور محسن عزیزکی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ارکان کے طورپر منظوری دے دی، چیئرمین سینیٹ نے بتایا کہ تمام صوبوں کو سینیٹ کی جانب سے پی اے سی میں نامزدگی دی گئی ہے۔

اسلام آباد(دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، مدت میں توسیع کے خواہشمند نہیں اور بار بار ان کی توسیع سے متعلق بات کرنا غیر ضروری ہے ۔اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مجھے اور اٹارنی جنرل کو واضح کہا تھا وہ توسیع کے خواہشمند نہیں اور توسیع نہیں لینا چاہتے ، دو تہائی اکثریت کی بات تو تب ہو جب توسیع لینا ہو، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ معزز شخص ہیں، ان کے بارے میں بار بار کہنا کہ وہ توسیع لے رہے ہیں ، درست نہیں۔ میری میڈیا کے دوستوں سے گزارش ہے اب کسی اور موضوع پر بات کرلیں، چیف جسٹس ایک باعزت شخص ہیں، ہمیں ان کی توسیع کی بات اب چھوڑ دینی چاہیے ۔ دریں اثنا مشیروزارت قانون وانصاف بیرسٹرعقیل نے دنیا نیوزکے پروگرام دنیا مہربخاری کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا اپوزیشن جماعتوں سے ان ڈائریکٹ مذاکرات کا آغازہو چکا جو نومئی کی معافی سے مشروط ہیں، مخصوص نشستوں کا معاملہ پارلیمان کوبھیج دینا چاہیے تھا، ججزکی تعداد بڑھنی چاہیے اس پربات ہوسکتی ہے ،جوسینئرترین جج ہیں انہوں نے ہی چیف جسٹس بننا ہے ، ہم کسی کی حق تلفی کی بات نہیں کررہے ، ججزکی توسیع ہوئی توسب کوملے گی،عدالتوں میں کیسزکا بہت زیادہ بیک لاک ہے ، سپریم کورٹ کے کیسزمیں18فیصد اضافہ ہوا ہے ،ججزکی تعداد بڑھنی چاہیے ، آئینی ترمیم سے تعداد کم زیادہ ہوسکتی ہے ، 22اگست کے جلسے کی منسوخی کا محمود اچکزئی کوبھی پتا نہیں تھا، محمود اچکزئی کی مذاکرات کی بات کوخوش آئند سمجھتے ہیں، اپوزیشن سے ان ڈائریکٹ بات چیت کا آغازہوچکا ہے ، براہ راست ٹاک نومئی کی معافی سے مشروط ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں