ایک عرصے سے وطنِ عزیز میں مذاکرات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ سیاسی تناؤ کے خاتمے کے لیے مذاکرات سے بہتر کوئی راستہ نہیں ‘ تاہم ابھی تک اس بات کی وضاحت نہیں ہو سکی کہ ان مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہو گا اور فریق کون ہوں گے۔جب تک ایجنڈا طے نہ ہو جائے‘ مذاکرات کا معاملہ کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟ اگر مذاکرات میثاقِ معیشت پر ہونے ہیں تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے معاشی پلان پر ابتدائی ورکنگ کر کے سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے انہیں مدعو کرے۔ حکومت جب اپنے حصے کا کام کر لے گی تو سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔ اگر کوئی جماعت مذاکرات کا حصہ نہیں بنتی تو حکمران جماعت کو اخلاقی برتری حاصل ہو جائے گی۔ ابتدائی کام کی اہمیت کو اس ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کریں کہ کسی شخص کو ایک کمپنی سے کوئی پروجیکٹ حاصل کرنا ہے۔ اس شخص کا ابتدائی ورکنگ کیے بغیر کمپنی کے پاس جا کر پروجیکٹ کا معاہدہ کرنے کی امید رکھنا بے معنی ہو گا۔ اس شخص کو پہلے اس منصوبے پر کام کرنا ہو گا جس کے لیے وہ معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ اسے منصوبے پر مکمل تحقیق کرنا ہو گی‘ اس کی منصوبہ بندی کرنا ہو گی‘ اس کے لیے ضروری وسائل جمع کرنا ہوں گے اور اس پر ابتدائی کام کرنا ہو گا۔ اس کے بعد ہی وہ کمپنی کے پاس جا کر اپنے کام کو پیش کر سکتا ہے اور پروجیکٹ حاصل کرنے کی امید رکھ سکتا ہے۔ ابتدائی ورکنگ کسی بھی کام کو انجام دینے کے لیے ایک بنیادی اور ضروری مرحلہ ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جس میں کسی بھی کام کی منصوبہ بندی‘ تیاری اور ترتیب پر کام کیا جاتا ہے۔ ابتدائی کام سے کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اس سے کام کی انجام دہی میں آسانی ہوتی ہے۔
ہم نے انہی سطور میں لکھا کہ سیاسی مذاکرات بظاہر پی ٹی آئی کی ضرورت ہیں‘ اس لیے وہی آگے بڑھ کر پہل کرے۔ اسی طرح ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ میثاقِ معیشت حکومت کی ضرورت ہے‘ اس لیے وہ سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کوشش کرے۔ معیشت کی بہتری اور سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنا حکومت کی دو اہم ذمہ داریاں ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی حمایت سے حکومت کو اپنے فیصلے کرنے اور اپنے منصوبے نافذ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت اپنے تئیں معاشی بحران سے نمٹنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے لیکن چونکہ چیلنجز زیادہ ہیں اور ہمیں دیرپا معاشی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے‘ جو کسی حکومت کے تبدیل ہونے کے بعد بھی جاری رہے‘ اس لیے دیگر سیاسی جماعتوں کی شمولیت نہایت اہم ہے۔ طویل المدتی اقتصادی منصوبہ بندی کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس منصوبہ بندی کے ذریعے ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے طویل المدتی مقاصد اور حکمتِ عملی کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس منصوبے میں ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے ضروری اقدامات اور وسائل کا بھی تعین کیا جاتا ہے۔ طویل المدتی اقتصادی منصوبہ بندی کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ عموماً حکومت کی تبدیلی کے ساتھ اقتصادی پالیسیوں میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔ اگر ہر نئی حکومت اپنا الگ اقتصادی منصوبہ بنائے گی تو اس سے ملک کی اقتصادی ترقی میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ طویل المدتی اقتصادی منصوبہ بندی سے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ صرف معاشی معاملات پر میثاق کافی نہیں ہو گا‘ سیاسی تناؤ کا خاتمہ بھی مذاکرات کا حصہ ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے سیاسی تناؤ کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں پی ٹی آئی کی شمولیت ہونا ضروری ہے۔ اس ضمن میں ابھی تک فاصلے برقرار ہیں۔ پی ٹی آئی مقتدرہ کے ساتھ مذاکرات چاہتی ہے جبکہ حکمران اتحاد کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی پہلے نو مئی کے واقعات پر معافی مانگے پھر اس کے ساتھ مذاکرات ہو سکتے ہیں۔
ہفتہ کو ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بات زیرِ غور آئی۔ پی ٹی آئی سے مذاکرات ہونے چاہئیں یا نہیں‘ اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت دو حصوں میں بٹی ہوئی دکھائی دی۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے دیگر جماعتوں سے بات چیت کیلئے گرین سگنل دے دیا ہے جبکہ وزیراعظم شہبازشریف نے پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کے حامی معتدل گروپ سے مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف اور رانا ثنا اللہ کو اپوزیشن سے مذاکرات کا ٹاسک بھی سونپا گیا ہے۔ ایک طرف تو مسلم لیگ (ن) کے اندر پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حوالے سے خلیج ہے دوسری طرف پی ٹی آئی بھی حکومت کے بجائے مقتدرہ سے مذاکرات کی خواہاں ہے‘ اس خلیج کو ختم کیے بغیر مذاکرات کی بات آگے کیسے بڑھ سکتی ہے؟ وزیراعظم شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کو اپوزیشن سے مذاکرات کا جو ٹاسک دیا گیا ہے تو ایوان کے اندر پی ٹی آئی کے علاوہ اور کون سی اپوزیشن جماعت ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کی اہم اتحادی جماعت پیپلز پارٹی پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کا مؤقف رکھتی ہے۔ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں کے آپس میں مذاکرات ہونے چاہئیں‘ اس وقت وزیراعظم شہباز شریف کو سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کی سربراہی کرنی چاہیے‘ وہ قدم اٹھائیں‘ اس وقت ٹیم کے کپتان وزیراعظم ہیں‘ ان کو فیصلہ کرنا ہو گا۔ پیپلز پارٹی نیشنل سکیورٹی اور قومی معاملات پر حکومت کا ساتھ دینا چاہتی ہے مگر وہ یکطرفہ مذاکرات کا حصہ نہیں بنے گی۔ مسلم لیگ (ن) کبھی اپنی اہم اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کو ناراض نہیں کرے گی کیونکہ پیپلز پارٹی کی ناراضی کے بعد حکومت کا برقرار رہنا مشکل ہو گا۔ سو مذاکرات کا دائرہ وسیع ہونا چاہیے جس میں معیشت اور سیاسی معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ حکومت کو سکیورٹی اور معاشی معاملے پر آسانی سے سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے لیکن سیاسی معاملات کو حل کیے بغیر چھوڑ دینا غلطی ہو گی‘ آج کا حل طلب معاملہ آگے چل کر مزید سنگین ہو سکتا ہے۔
تحریک انصاف نے اپنی اتحادی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے سربراہ بنایا ہے۔ محمود خان اچکزئی سینئر سیاستدان ہیں‘ ان کے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ قریبی مراسم رہے ہیں۔ وہ سیاسی انداز سے معاملات کو حل کر لیں گے۔ اپوزیشن و حکومتی مذاکراتی کمیٹیوں کے ابتدائی روابط ہوئے ہیں‘ شنید ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کہا ہے کہ انہیں محمود خان اچکزئی سے کوئی شکوہ نہیں؛ البتہ پی ٹی آئی کے طرزِ سیاست سے شکایت ہے۔ اور یہ کہ پی ٹی آئی کا معاملہ محمود اچکزئی کے ساتھ کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟ مطلب یہ کہ حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ براہِ راست مذاکرات چاہتی ہے۔ براہِ راست مذاکرات ہی مسئلے کا حل ہیں‘ اس لیے پی ٹی آئی کو مقتدرہ سے مذاکرات کی خواہش کو ترک کر کے فوری مذاکرات کا حصہ بننا چاہیے جبکہ حکمران جماعت کو کسی حیل و حجت کے بغیر پی ٹی آئی کو مذاکرات میں شامل کرنا چاہیے۔